بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر اللہ کے نام پر یا عمداً تسمیہ کے بغیر ذبح کیا ہوا جانور کافر کو فروخت کرنا


سوال

جو جانور اللہ کے نام کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیا جائے یا قصداً اللہ کا نام عند الذبح نہ لیا جائے تو کیا یہ گوشت کفار کو قیمت پر یا فری دینا جائز ہے؟

جواب

غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور  یا جس جانور پر ذبح کرتے ہوئے قصداً اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، ایسا جانور  مردار اور حرام ہے، اور مردار شرعاً مال نہیں ہے،  لہذا مسلمان کے لیے اسے  مسلمان یا غیر مسلم کو   فروخت کرنا یا ہبہ کر نا شرعاً درست نہیں ہے۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 50):
"(بطل بيع ما ليس بمال) والمال ما يميل إليه الطبع ويجري فيه البذل والمنع درر، فخرج التراب ونحوه (كالدم) المسفوح فجاز بيع كبد وطحال (والميتة) سوى سمك وجراد، ولا فرق في حق المسلم بين التي ماتت حتف أنفها أو بخنق ونحوه.
(قوله: والميتة) بفتح الميم وسكون الياء التي ماتت حتف أنفها لا بسبب، وبتشديد الياء المكسورة: التي لم تمت حتف أنفها بل بسبب غير الذكاة كالمنخنقة والموقوذة نوح أفندي، ولم أر هذا الفرق في القاموس ولا في المصباح ولا غيرهما فراجعه (قوله: ولا فرق في حق المسلم إلخ) أما في حق الذمي فيراد بها الأول، وأما الثاني فاختلفت عباراتهم فيه؛ ففي التجنيس جعله قسما من الصحيح؛ لأنهم يدينونه ولم يحك خلافاً وجعله في الإيضاح قول أبي يوسف. وعند محمد لايجوز، وجزم في الذخيرة بفساده، وجعله في البحر من اختلاف الروايتين نهر. وعبارة البحر: وحاصله أن فيما لم يمت حتف أنفه بل بسبب غير الذكاة روايتين بالنسبة إلى الكافر في رواية الجواز، وفي رواية الفساد، وأما البطلان فلا، وأما في حقنا فالكل سواء اهـ". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200154

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں