بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غلط رخ کی طرف نماز پڑھنے والے کا خارجی شخص کا لقمہ لینے کا حکم


سوال

اگر کوئی صحیح قبلہ رو نہ ہو اور دورانِ نماز اس کو کوئی لقمہ دے تو اس کے لیے لقمہ لینا ضروری ہے؟ اور مڑ جاتا ہے تو نماز فاسد ہو گی یا نہیں؟

جواب

قاعدہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نماز پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہو اور قبلہ معلوم نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہاں موجود لوگوں سے قبلہ معلوم کرلے، ورنہ دیگر وسائل اور قرائن سے قبلہ معلوم کرنے کی کوشش کرے، اور اگرمعلوم کرنے کا کوئی ذریعہ موجود نہ ہو تو ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ غور و فکر کر کے جہتِ قبلہ معلوم کرنے کی کوشش کرے، اگر اس نے غور و فکر کر کے ایک جہت طے کر لی اور اس طرف رخ کر کے نماز شروع کر دی اس کے بعد اس کو نماز کے دوران پتا چلا کہ اس کا رخ قبلہ کی طرف نہیں ہے اور قبلہ کسی دوسری طرف ہے تو  اس کے لیےحکم یہ ہے کہ نماز کے دوران ہی اپنا رخ صحیح کر لے اور اسی نماز کی بنا کر لے یعنی اسی نماز کو پورا کر لے، نئے سرے سے نماز شروع کرنا ضروری نہیں، اور ایسا کرنے سے اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی۔ البتہ  اگر ایسے شخص نے غور و فکر نہیں کیا اور اس کے بغیر ہی نماز کسی ایک رخ پر شروع کر دی  تو اس کی نماز  ابتدا ہی سے درست نہیں ہوئی اور  پھر دورانِ نماز صحیح قبلہ کا علم ہو بھی جائے تو ایسا شخص نماز کی بنا نہیں کرے گا، بلکہ نئے سرے سے نماز پڑھے گا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 119):

’’ فأما إذا صلى إلى جهة من الجهات بالتحري ثم ظهر خطؤه فإن كان قبل الفراغ من الصلاة استدار إلى القبلة، وأتم الصلاة؛ لما روي أن أهل قباء لما بلغهم نسخ القبلة إلى بيت المقدس استداروا كهيئتهم وأتموا صلاتهم، ولم يأمرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بالإعادة؛ ولأن الصلاة المؤداة إلى جهة التحري مؤداة إلى القبلة؛ لأنها هي القبلة حال الاشتباه، فلا معنى لوجوب الاستقبال‘‘.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 433):

’’(ويتحرى) هو بذل المجهود لنيل المقصود (عاجز عن معرفة القبلة) بما مر (فإن ظهر خطؤه لم يعد) لما مر (وإن علم به في صلاته أو تحول رأيه) ولو في سجود سهو (استدار وبنى)‘‘.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 435):

’’(وإن شرع بلا تحر لم يجز وإن أصاب) لتركه فرض التحري إلا إذا علم إصابته بعد فراغه فلا يعيد اتفاقاً‘‘.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 119):

’’وأما إذا شك ولم يتحر وصلى إلى جهة من الجهات  ... وأما إذا ظهر في وسط الصلاة روي عن أبي يوسف أنه يبني على صلاته؛ لما قلنا، وفي ظاهر الرواية: يستقبل‘‘.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143905200057

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں