بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غلط تلفظ والے امام کے پیچھے نماز کا حکم


سوال

اگر کسی امام صاحب کے تلفظ ٹھیک نہ ہوں، یعنی ز ،ذ، ض کو ایک جیسا پڑھیں، تو کیا ان کے پیچھے نماز ہوجائے گی؟

جواب

جواب سے پہلے  چند  اہم باتوں کی  وضاحت ضروری ہے:

1۔ کسی  خاص شخص سے متعلق سوال پوچھنا ہو تو  ضروری  ہے کہ جو دعویٰ یا الزام ہو اس کا ثبوت بھی پیش کیا جائے،  یا نزاعی مسئلہ ہو تو جانبین کا موقف مستند ذرائع سے پیش کیا جائے، اس لیے مذکورہ سوال جیسے معاملات میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ کسی مستند دار الافتاء میں ثبوت کے ساتھ ( مثلاً: تلاوت کی آڈیو  ریکارڈنگ کے ساتھ) حاضر ہوکر جواب معلوم کرلیا جائے۔

2۔ اور اگر ثبوت نہ ہوں تو کسی خاص شخص کو نشانہ بنا کر سوال کرنا شرعاً  پسندیدہ ودرست نہیں ہے۔ اگر عمومی مسئلہ دریافت کرنا ہو تو یوں سوال کرلیا جائے کہ  اس طرح قرأت کرنا کہ جس میں (مثلاً) ایک حرف کو دوسرے سے تبدیل کرنا پایا جاتا ہو یا صفات کی رعایت نہ رکھی جاتی ہو کیا حکم ہے؟ اور ایسی قرأت کرنے والے کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم؟

بہر حال ذیل میں ایسی قرأت کا حکم تفصیلاً درج کیا جارہاہے، اگر واقعۃً کوئی شخص ایسے قراءت کرتا ہو  تو اس کا حکم یہ ہوگا۔  لیکن اس بات کا فیصلہ کرنا  کہ امام کی قرأت درست ہے یا غلط؟ اور اگر غلطیاں ہیں تو کس درجہ کی ہیں؟ یہ عوام اور ہر ایرے غیرے کا کام نہیں ہے، بلکہ یہ فیصلہ ماہر فن یعنی ماہر مجود قاری ہی کر سکتا ہے، اس  لیے درج ذیل  فتوے کے ذریعہ مسجد میں امام کے خلاف فتنہ کھڑا کرنا  اور انتشار پھیلانا درست نہیں ہے،  بلکہ امام صاحب کی قرأت کسی ماہر مجود قاری اور مفتی صاحب کو سنوا کر ان سے فیصلہ کروالیا جائے کہ امام صاحب کی قرأت کیسی ہے۔ 

جو شخص قرأت کے دوران ایک حرف کو دوسرے سے بدل دیتا ہو اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر وہ ایسا اس لیے  کرتا ہے کہ وہ تمام حروف کی ادائیگی پر قادر ہی نہیں ہے تو ایسے شخص کو ’’الثغ‘‘ کہتے ہیں، اور ’’الثغ‘‘ کے پیچھے ایسے شخص کی نماز نہیں ہوتی جو درست قرأت کرنے پر قادر ہو۔لیکن اگر ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف غلطی سے پڑھ لیا جائے تو دیکھا جائے گا کہ ان دو حرفوں میں فرق کرنا مشکل اور دشوار ہے یا نہیں، اگر ان دو حرفوں میں فرق کرنا دشوار ہو تو نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن اگر ان دو حرفوں میں کسی مشقت کے بغیر آسانی سے فرق کرسکتا ہو اور فرق نہ کرنے کی وجہ سے معنیٰ میں تغیر فاحش آگیا ہو تو نماز فاسد ہو جائے گی اور امام کی نماز کے فساد کی وجہ سے مقتدیوں کی نماز بھی فاسد ہو جائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 581):

"(و) لا (غير الألثغ به) أي بالألثغ (على الأصح) كما في البحر عن المجتبى، وحرر الحلبي وابن الشحنة أنه بعد بذل جهده دائماً حتماً كالأمي، فلايؤم إلا مثله، ولاتصح صلاته إذا أمكنه الاقتداء بمن يحسنه أو ترك جهده أو وجد قدر الفرض مما لا لثغ فيه، هذا هو الصحيح المختار في حكم الألثغ، وكذا من لايقدر على التلفظ بحرف من الحروف أو لايقدر على إخراج الفاء إلا بتكرار.

(قوله: ولا غير الألثغ به) هو بالثاء المثلثة بعد اللام من اللثغ بالتحريك. قال في المغرب: هو الذي يتحول لسانه من السين إلى الثاء، وقيل: من الراء إلى الغين أو اللام أو الياء. زاد في القاموس أو من حرف إلى حرف (قوله: على الأصح) أي خلافاً لما في الخلاصة عن الفضلي من أنها جائزة؛ لأن ما يقوله صار لغةً له، ومثله في التتارخانية. وفي الظهيرية وإمامة الألثغ لغيره تجوز، وقيل: لا، ونحوه في الخانية عن الفضلي. وظاهره اعتمادهم الصحة، وكذا اعتمدها صاحب الحلية، قال: لما أطلقه غير واحد من المشايخ من أنه ينبغي له أن لايؤم غيره، ولما في خزانة الأكمل: وتكره إمامة الفأفاء اهـ ولكن الأحوط عدم الصحة كما مشى عليه المصنف ونظمه في منظومته تحفة الأقران، وأفتى به الخير الرملي وقال في فتاواه: الراجح المفتى به عدم صحة إمامة الألثغ لغيره ممن ليس به لثغة".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 632):

"ولو زاد كلمةً أو نقص كلمةً أو نقص حرفاً،  أو قدمه أو بدله بآخر نحو من ثمره إذا أثمر واستحصد - تعالى جد ربنا - انفرجت بدل - انفجرت - إياب بدل - أواب - لم تفسد ما لم يتغير المعنى إلا ما يشق تمييزه كالضاد والظاء فأكثرهم لم يفسدها.

 (قوله: أو بدل بآخر) هذا إما أن يكون عجزاً كالألثغ وقدمنا حكمه في باب الإمامة، وإما أن يكون خطأً، وحينئذ فإذا لم يغير المعنى، فإن كان مثله في القرآن نحو (إن المسلمون) لايفسد، وإلا نحو (قيامين بالقسط)، وكمثال الشارح لاتفسد عندهما، وتفسد عند أبي يوسف، وإن غير فسدت عندهما؛ وعند أبي يوسف إن لم يكن مثله في القرآن، فلو قرأ (أصحاب الشعير) بالشين المعجمة فسدت اتفاقا وتمامه في الفتح (قوله: نحو من ثمره إلخ) لف ونشر مرتب (قوله: إلا ما يشق إلخ) قال في الخانية والخلاصة: الأصل فيما إذا ذكر حرفاً مكان حرف وغير المعنى إن أمكن الفصل بينهما بلا مشقة تفسد، وإلا يمكن إلا بمشقة كالظاء مع الضاد المعجمتين والصاد مع السين المهملتين والطاء مع التاء قال أكثرهم: لاتفسد. اهـ. وفي خزانة الأكمل: قال القاضي أبو عاصم: إن تعمد ذلك تفسد، وإن جرى على لسانه أو لايعرف التمييز لاتفسد، وهو المختار، حلية. وفي البزازية: وهو أعدل الأقاويل، وهو المختار اهـوفي التتارخانية عن الحاوي: حكى عن الصفار أنه كان يقول: الخطأ إذا دخل في الحروف لايفسد؛ لأن فيه بلوى عامة الناس لأنهم لايقيمون الحروف إلا بمشقة. اهـ. وفيها: إذا لم يكن بين الحرفين اتحاد المخرج ولا قربه إلا أن فيه بلوى العامة كالذال مكان الصاد أو الزاي المحض مكان الذال والظاء مكان الضاد لاتفسد عند بعض المشايخ. اهـ.

قلت: فينبغي على هذا عدم الفساد في إبدال الثاء سيناً والقاف همزةً كما هو لغة عوام زماننا، فإنهم لايميزون بينهما ويصعب عليهم جداً كالذال مع الزاي ولا سيما على قول القاضي أبي عاصم وقول الصفار، وهذا كله قول المتأخرين، وقد علمت أنه أوسع وأن قول المتقدمين أحوط، قال في شرح المنية: وهو الذي صححه المحققون وفرعوا عليه، فاعمل بما تختار، والاحتياط أولى سيما في أمر الصلاة التي هي أول ما يحاسب العبد عليها".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201512

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں