بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غلام کس کو بنایا جا سکتا ہے؟


سوال

کیا اسلام میں صرف جنگی قیدیوں کو غلام بنایا جا سکتا ہے یا ان علاقے کی خواتین کو جو دوران جنگ فتح ہوئے ہوں؟ اور کیا علی اپنے دوست کو محبت میں کہے کہ وہ اپنے دوست کا غلام ہے تو اس طرح وہ غلام نہیں بنے گا؟ کیوں کہ اس معاملے میں نیت کا اعتبار ہوگا یا پھر کہ کوئی مسلمان کسی آزاد مسلمان کو کسی بھی طرح غلام نہیں بنا سکتا اگرچہ دوسرا مسلمان خود کو فروخت کر دے یا پھر وہ اپنی رضا مندی سے بغیر کسی عوض کسی کو اپنا آقا بنا لے؟ 

جواب

اسلام نے ہر انسان کو انسانیت کے حقوق عطا کیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام کو آزاد کرنے کی نہ صرف  ترغیب دی ہے بلکہ بڑے فضائل بیان فرمائے ہیں۔

غلامی درحقیقت کفار کے لیے سزا ہے، جنہوں نے خالق کائنات کی غلامی قبول کرنا گوارا نہیں کیا، جس کی سزا میں اللہ رب العزت نے اپنی مخلوق کی غلامی کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا، پس مذکورہ بالا تفصیل سے یہ معلوم ہو گیا کہ کسی بھی آزاد مسلمان شخص  کو  ابتداءً  غلام بنانا شرعاً جائز نہیں ہے، ہاں یہ ہوسکتاہے کہ کفر کی حالت میں غلام بنایا گیا شخص مسلمان ہوجائے تو وہ غلام ہی رہے گا جب تک اس کا آقا اسے آزاد نہ کردے. اسی طرح  کوئی آزاد شخص اپنے آپ کو فروخت کرنے کا اختیار نہیں رکھتا ہے،  اور نہ ہی وہ خود کسی کی غلامی بمعنی شرعی اختیار کر سکتا ہے. البتہ اگر کوئی اپنی اصلاح کی خاطر  اپنا تن من دھن سب کسی مصلح کے سپرد کرتا ہے تو اسے شرعی معنی کے اعتبار سے غلام نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی غلامی کے احکامات اس پر جاری کرنا جائز ہوگا، لہذا کسی سے یہ کہنا کہ میں آپ کا غلام، یا میں نے اپنا آپ، آپ کو  فروخت کردیا یا کچھ اور الفاظ کہنے سے غلامی کا تحقق نہیں ہوگا۔ یہ سب محاورات ہیں جو تابع داری واحترام یا عقیدت کے اظہار کے لیے استعمال ہوتے ہیں. 

وہ کافر جو مسلمانوں سے جنگ کریں اور دورانِ جنگ وہ  گرفتار ہوجائیں، تو ایسی صورت میں ان کو غلام بنانے کی اگرچہ اجازت ہے، تاہم قانونِ دنیا کے مطابق غلام نہ بنانے کا اختیار مسلمان حاکمِ  وقت کو ہے، جیسے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوات میں گرفتار مشرکوں میں سے بعض کو مسلمان گرفتار افراد کے عوض میں چھوڑ دیا تھا، کچھ کی گرفتاری کا فدیہ  مسلمانوں کو تعلیم دینے کی شکل میں وصول کرکے قید سے آزاد کردیا تھا۔ اسی طرح مسلمان حکومت کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ جنگی قیدیوں کو غلام بنائے ہی نہیں، خواہ انہیں قید میں رکھے یا قیدیوں کا تبادلہ کرے یا سیاسۃً رہاکردے.

اسی طرح وہ غلام جو کفر کی حالت میں غلام بناکر کفار ایک دوسرے کے ہاتھوں فروخت کرتے آرہے ہوں جن کی اصل کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ کفار نے انہیں کیسے غلام بنایا، ان غلاموں کی خرید و فروخت  مسلمانوں کے لیے جائز ہے. 

آج کل عالمی سطح پر تمام حکومتوں کا باہم معاہدہ ہے کہ کسی کو غلام نہیں بنایا جائے گا، لہذا جب تک مسلمان اس معاہدے میں شامل ہیں تب تک کسی جنگی قیدی کو بھی غلام بنانے کی اجازت نہیں ہے.

واضح رہے کہ وہ علاقے جو جنگ کے نتیجے میں فتح ہوئے ان کی خواتین کو مطلقاً باندی بنانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے، بلکہ صرف دورانِ جنگ گرفتار ہونے والے افراد جن کے بارے میں مسلمانوں کا حاکم  یہ فیصلہ کرے کہ انہیں غلام بنایا جائے وہ غلام بنائے جاسکتے ہیں. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200504

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں