فون پر بیوی سے بات کرنے کے بعد شوہر نے غصہ میں تپ کر تنہائی میں کہا: بھاڑ میں جا ؛ اب نیت کا کیسے پتا لگے گا کہ طلاق کی نیت تھی یا نہیں؟ میں شوہر ہوں اب یہ بات بار بار میرے ذہن میں آتی ہے۔ میری راہ نمائی فرمائیں!
واضح رہے کہ طلاق کے الفاظ دو قسم کے ہیں: صریح اور کنایہ۔ صریح الفاظ وہ ہیں جو طلاق دینے کے لیے ہی وضع ہوئے ہیں؛ ایسے الفاظ کا حکم یہ ہے کہ ان الفاظ کے کہنے سے فوراً طلاق واقع ہو جاتی ہے چاہے طلاق کی نیت نہ کی ہو، مثلاً: میں تجھے طلاق دیتا ہوں، تجھے طلاق ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جن کی وضع طلاق دینے کے لیے نہ ہو ، لیکن ان میں طلاق کا احتمال ہو، ان الفاظ سے طلاق کا وقوع نیت یا دلالتِ حال پر موقوف ہوتا ہے، اگر نیت کر لی جائے یا حالت دلالت کرے تو طلاق واقع ہو گی ورنہ نہیں، مثلاً: 'دفع ہو جا' وغیرہ الفاظ۔
نیز دونوں قسم کے الفاظ سے طلاق کے وقوع کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ الفاظِ طلاق کی نسبت اپنی منکوحہ کی طرف صراحت کے ساتھ کی گئی ہو یا اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہو، پس آپ نے سوال میں جس لفظ سے متعلق سوال کیا ہے یعنی 'بھاڑ میں جا'، اگر یہ الفاظ بیوی کی غیر موجودگی میں ہی کہیں ہیں تو اس میں بیوی کی طرف نہ صراحۃً نسبت ہے اور نہ ہی اشارۃً نسبت ہے، لہذا ان الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر یہی الفاظ بیوی کی موجودگی میں کہے ہوتے تو اس صورت میں بھی وقوعِ طلاق شوہر کی نیت پر موقوف تھا، لہذا شک میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909200106
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن