میں نے اپنی بیوی کو فون پر غصے میں دو بار یہ لفظ بولے ہیں کہ "میں تجھے فارغ کرتا ہوں" (مطلب کہ فارغ کردونگا) اورایک باریہ کہا: "میں نے تجھےآزاد کردیا ہے. اکیلی جگہ پر تو باربارفون کاٹ ری ہے نا اپنی ماں سے یا اپنے باپ سے کہنا اب آرام سے تیری شادی کرائیں"، عدّت گزارنے کے بعد وہ یہی چاھتے تھے نہ کےتجھےطلاق ہوجائے". مگرمیری نیت بیوی کوآزاد کرنے کی نہیں تھی. میں اسے ڈرانے کہ لئے بول رہا تھا کہ وہ سدھار جائےاوراپنے گھرواپسی آجائےمیری بدنامی نہ بنائیں لوگوں میں.اگرمیں نےاسےطلاق دینی ہوتی تومیں اسےطلاق والےالفاظ کہتا. برائے مہربانی مجھے بتائیں کےطلاق ہوئی کے نہیں میں کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کے میں اپنی بیوی کو طلاق دونگا اس لئے میں نے یہ الفاظ بولے میری سمجھ کے مطابق ان الفاظ سے نیت ہونے پر طلاق ہوتی ہے. مفتی صاحب جواب جلدی دیجئے گا
جب پہلی بار سائل نے اپنی بیوی کو غصے میں یہ الفاظ کہے کہ: میں تم کو فارغ کرتا ہوں، اور اس کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی، تو ان الفاظ سے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی تھی۔لیکن جب اس نے یہ الفاظ کہے کہ: میں نے تجھے آزاد کردیا ہے، تو ان الفاظ کے کہنے سے سائل کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی، اور میاں بیوی کا رشتہ ختم ہوگیا۔ کیوں کہ ان الفاظ سے طلاق واقع ہونے کے لیے نیت کی شرط نہیں ہے۔ایک طلاق بائن کے بعد دوران عدت اور عدت کے بعد سائل کے لیے اپنی سابقہ بیوی سے نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں باہمی رضامندی کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ نئے نکاح کے بعد سائل کو صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔
فتوی نمبر : 143612200004
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن