بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غاصب کی سزا


سوال

 غاصب کی سزا کیا ہے؟

جواب

 حدیث شریف میں غاصب کی اخروی سزا یہ بیان کی گئی ہے۔

''عن سعيد بن زيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من أخذ شبراً من الأرض ظلماً ؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين "
ترجمہ: حضرت سعید بن زید کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی کی بالشت بھر زمین بھی ازراہِ ظلم لے گا قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی زمین اس کے گلے میں بطورِ طوق ڈالی جائے گی۔ ( بخاری ومسلم)

اور  غاصب کے لیے دنیاوی حکم یہ ہے کہ اگر مغصوب چیز  اس کے پاس موجود ہو تو  وہ مالک کو واپس  کردے اور اگر وہ موجود نہ ہو  تو اس کی قیمت  یا اس جیسی چیز اس کو ادا کرے ۔ اور جب یہ معاملہ قاضی کے سامنے پیش ہو اور وہ مناسب سمجھے تو اس فعل پر جو مناسب سمجھے تعزیر بھی کرسکتاہے۔مزید یہ کہ اس نے اصل مالک کو جو تکلیف پہنچائی اس پر اس سے معافی مانگے۔

 '' لأن الغصب لیس من أسباب الملک، هذا عند الجمهور، وأما عند أبي حنیفة رحمه الله ؛ فلعدم زوال الید المحقة في العقار، فتکون للمالک السابق بلاریب''۔

(ردالمحتار ۵:۱۶۲)

قال العلّامة المرغینانی رحمه اللّٰه : ''وعلی الغاصب ردّالعین المغصوبة معناه مادام قائمًا لقوله علیه السلام:’’علی الید ما أخذت حتّی تردّ.‘‘وقال علیه السلام: ’’لایحلّ لأحد أن یأخذ متاع أخیه لاعبًا ولاجادًّا فإن أخذه فلیردّه علیه‘‘۔'' (الهدایة، ۳:۳۷۳، کتاب الغصب)
''والتعزیر تادیب دون الحد، أکثره تسعة وثلاثون سوطاً، وأقله ثلاثة لو بالضرب، وجعله فی الدر علی أربع مراتب''. (شامی 3/ 274)
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201685

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں