بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عید کی نمازمیں پہلی رکعت میں تکبیرات بھول جانا


سوال

عید کی نماز میں امام صاحب نے پہلی رکعت میں تکبیرات بھول کر سورہ فاتحہ پڑھ لی، اس کے بعد نیت توڑ کر دوبارہ نماز پڑھائی،  کیا اس طرح نماز درست ہو گئی؟

جواب

اگر کوئی شخص عید کی نماز میں پہلی رکعت کی تکبیرات ابتدا  میں کہنا بھول جائے تو اس کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ کے درمیان یافاتحہ مکمل پڑھنے کے بعد یاد آئیں تو تکبیرات پڑھ لی جائیں اور سورۂ فاتحہ دوبارہ پڑھ لے، اور اگر سورۂ فاتحہ ا ور ساتھ کوئی سورت  ملانے کے بعد یاد آئے تواب صرف تکبیرات کہہ دے ، اور بقیہ نماز مکمل کرلے ،قراءت کا اعادہ نہیں ہے۔ نیزتکبیراتِ عیدین واجب ہیں، اور  اگر امام تکبیراتِ زوائد بھول بھی جائے تب بھی عیدکے مجمع میں زیادہ اژدحام کی وجہ سے اگر انتشار کا امکان ہو توسجدہ سہو ساقط ہے۔

لہذا امام صاحب کو اس مسئلہ پر عمل کرنا چاہیے تھا نماز توڑنے کی حاجت نہیں تھی،لیکن اگر امام نے نماز توڑ دی اور دوبارہ نماز پڑھادی تو بھی نماز درست ہوگئی ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"لكن في البحر عن المحيط: إن بدأ الإمام بالقراءة سهواً فتذكر بعد الفاتحة والسورة يمضي في صلاته، وإن لم يقرأ إلا الفاتحة كبر وأعاد القراءة لزوماً؛ لأن القراءة إذا لم تتم كان امتناعاً من الإتمام لا رفضاً للفرض اهـ ونحوه في الفتح وغيره، وظاهره أن تقديم التكبير على القراءة واجب وإلا لم ترفض الفاتحة لأجله، ويؤيده ما قدمناه في باب صفة الصلاة من أنه إن كبر وبدأ بالقراءة ونسي الثناء والتعوذ والتسمية لايعيد؛ لفوت محلها. وقد يجاب بأن العود إلى التكبير قبل إتمام القراءة ليس لأجل المستحب الذي هو الموالاة، بل لأجل استدراك الواجب الذي هو التكبير؛ لأنه لم يشرع في الركعة الأولى بعد القراءة؛ بدليل أنه لو تذكره بعد قراءة السورة يتركه، فكان مثل ما لو نسي الفاتحة وشرع في السورة، ثم تذكر يترك السورة ويقرأ الفاتحة لوجوبها بخلاف الثناء والتعوذ والتسمية، والله أعلم". (2/173)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے :

"( ولايأتي الإمام بسجود السهو في الجمعة والعيدين ) أي والمأموم كذلك؛ لأنه تابع له وظاهره كراهة الإتيان به فيها والظاهر أنها تنزيهية لا تحريمية، وإن كانت العلة ربما تشعرها، وذلك لأن البعض يقول بالإتيان به، فتأمل قوله : ( دفعاً للفتنة ) أي افتتان الناس وكثرة الهرج قوله : ( بكثرة الجماعة ) الباء للسببية وهي متعلقة بقوله : للفتنة وأخذ العلامة الواني من هذه السببية أن عدم السجود مقيد بما إذا حضر جمع كثير أما إذا لم يحضروا فالظاهر السجود لعدم الداعي إلى الترك وهو التشويش اهـ". (1/301)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200366

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں