بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا شلوار پہننا


سوال

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضورِ اقدس ﷺکے پاس بارش کے دنوں میں بقیعِ غرقد کے مقام پر بیٹھا تھا ، گدھے پر سوار ایک عورت گزری ،جس پر بوجھ تھا ، ایک نشیبی زمین پر پہنچی ،جہاں گڑھا تھا ،تو گر پڑی آپ ﷺنے دیکھ کر چہرہ عورت کی طرف سے پھیر لیا ،لوگوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول!یہ شلوار پہنے ہوئے ہے، آپ ﷺنے فرمایا:اے اللہ !میری اُمت کی ان عورتوں کی جو شلوار پہنتی ہیں مغفرت فرما۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ میری امت کی ان عورتوں کی جو شلوار پہنتی ہیں مغفرت فرما۔یہ سمجھ نہیں آیا اس کا مطلب کیا ہے؟  کیا شلوار پہننا عورتوں کے لیے ٹھیک نہیں؟

جواب

آپ نے سوال میں جس روایت کا ذکر کیا ہے یہ روایت حدیث کی متعدد کتب میں مذکور ہے اور اس حدیث میں مغفرت کی دعا کرنا ناپسندیدگی یا گناہ کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ پسندیدگی کی وجہ سے ہے، کیوں کہ اسلام سے پہلے عرب میں شلوار کا عمومی استعمال نہیں تھا، جب کہ شلوار میں ستر زیادہ ہے؛ لہٰذا ایسی خواتین جو شلوار پہنتی ہیں ان کی مغفرت کی دعا فرمائی تاکہ دیگر خواتین بھی نبی کریم ﷺ کی دعا کا مصداق بننے کے لیے شلوار پہن کر زیادہ ستر کا اہتمام کریں، اور دعا کی مستحق بنیں۔ چناں چہ بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ’’اے لوگو! شلواریں بنایا کرو، اس لیے  کہ اس میں ستر زیادہ ہوتا ہے، اور جب تمہاری عورتیں باہر نکلیں تو ان (شلواروں) کے ذریعے انہیں محفوظ رکھا کرو‘‘۔ لہذا عورتوں کا شلوار پہننا نہ صرف درست ہے، بلکہ زیادہ ستر ہونے کی وجہ سے بہترہے۔

الآداب للبيهقي (ص: 208):

"عن علي رضي الله عنه قال: كنت قاعداً عند رسول الله صلى الله عليه وسلم بالبقيع في يوم دجن مطر، فمرت امرأة على حمار معها مكار، فهوت يد الحمار في وهدة من الأرض، فسقطت المرأة، فأعرض النبي صلى الله عليه وسلم عنها بوجهه، فقالوا: يا رسول الله، إنها متسرولة، فقال: «اللهم اغفر للمتسرولات من أمتي» ثلاثاً، «يا أيها الناس اتخذوا السراويلات؛ فإنها من أستر ثيابكم، وحصنوا بها نساءكم إذا خرجن». قال الشيخ أحمد: وقد روينا هذه القصة إلى قوله: رحم الله المتسرولات، عن عبد المؤمن بن عبد الله وخارجة بن مصعب، عن محمد بن عمرو، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة مختصراً".

مسند البزار = البحر الزخار (3/ 112):

"عن علي، قال: كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم عند البقيع يعني بقيع الغرقد، في يوم مطير فمرت امرأة على حمار ومعها مكاري فمرت في وهدة من الأرض فسقطت فأعرض عنها بوجهه فقالوا: يا رسول الله إنها متسرولة فقال: اللهم اغفر للمتسرولات من أمتي".

كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال (15/ 463):

" عن علي قال: كنت قاعداً عند رسول الله صلى الله عليه وسلم عند البقيع في يوم مطير، فمرت امرأة على حمار ومعها مكار ، فمرت في وهدة من الأرض فسقطت، فأعرض عنها بوجهه، فقالوا: يا رسول الله! إنها متسرولة، فقال: "اللهم اغفر للمتسرولات من أمتي! يا أيها الناس! اتخذوا السراويلات، فإنها من أستر ثيابكم، وحصنوا بها نساءكم إذا خرجن". "البزار". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200237

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں