بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے لیے نماز میں قیام کی حالت میں پاؤں ملانے یا فاصلہ رکھنے کا حکم


سوال

کیا عورت نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہونے کے وقت پیر کو ملاکے رکھے یا مرد کی طرح تفریق بمقدار چار انگشت رکھے؟

جواب

نماز میں قیام کی حالت میں  دونوں پیروں کے درمیان معتدل  فاصلہ  رکھنا مسنون ہے، اور  دونوں پاؤں کو ملا کر کھڑا ہونا خلافِ سنت ہے، لہذا  دونوں پاؤں کے درمیان معتدل فاصلہ رکھنا چاہئے، نہ بہت کم ہو، اور نہ ہی بہت زیادہ ہو؛  تاکہ بلا تکلف کھڑے ہوا جاسکے،  اور نماز میں خشوع و خضوع حاصل  ہو، اس کی مقدار فقہاء کرام نے ہاتھوں کی چار  انگلیوں کے بقدر ذکر کی ہے۔

عورتوں کے لیے  قیام کی حالت میں پیروں کے درمیان  فاصلہ نہ رکھنے  سے متعلق فقہاء کرام کی عبارت  میں صراحت نہیں ملتی ، البتہ اکابرین کے فتاوی میں دو مختلف پہلوؤں سے دونوں باتیں ملتی ہیں:

(1) عورت کے لیے چوں کہ  نماز  کے ارکان میں  شریعت کی طرف سے ایسی ہیئت اختیار کرنے  کا حکم ہے جو ان کے لیے زیادہ استر (پردہ والی) ہو  اور ان کو نماز   میں قیام، رکوع، سجدے اور قعدہ  میں  اپنے تمام اعضاء کو سمٹ کر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، اس پہلو سے عورت کے لیے    قیام ، رکوع اور سجدہ  میں اپنے دونوں ٹخنوں کو ملانا بہتر ہے،  ان میں فاصلہ نہیں رکھنا چاہیے، اس لیے اس سے ان کاجسم سمٹا ہوا ہوگا اور یہ ان کے لیے زیادہ استر ہوگا۔ جیساکہ  عمدۃ الفقہ میں  ہے:

"عورتوں کو قیام میں دونوں پاؤں  ملے ہوئے رکھنے  چاہییں، یعنی ان  میں فاصلہ نہ رکھے، اسی طرح رکوع وسجدے میں بھی ٹخنے ملائے۔" 

(2/ 114، کتاب الصلوٰۃ،نماز کے اندر عورتوں کے مخصوص مسائل، ط: زوار اکیڈمی)

(2) دو سرا پہلو یہ ہے کہ  مرد اور عورتوں کی نماز میں جہاں    فرق موجود  ہیں، فقہاء کرام نے  ان   میں  عورت کی نماز کا فرق واضح ذکر کیا ہے، اور  قیام کی حالت میں  پیروں کے درمیان معتدل فاصلہ رکھنے کے مسنون ہونے کو  مطلقاًذکر کیا ہے، اس میں عورتوں کا فرق ذکر نہیں کیا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے آثار سے بھی  یہی معلوم ہوتا ہے کہ  قیام کی حالت میں دونوں پیروں کے درمیان فاصلہ  رکھنا مسنون ہے، اس میں  بھی مرد اور عورت کی کوئی تفریق نہیں ہے،  لہذا عورتوں کے لیے بھی قیا م کی حالت میں  پیروں کی درمیان معتدل فاصلہ رکھنا چاہیے، جیساکہ  امداد الاحکام میں ہے:

"سوال: عورت نماز میں قیام کے وقت دونوں پاؤں کے درمیان کتنا فاصلہ رکھے؟ اور کیا دونوں پاؤں کے ٹخنے بالکل ملا دے؟

 الجواب :

قال في رد المحتار: وينبغي أن يكون بينهما مقدار أربع أصابع اليد لأنه أقرب إلى الخشوع، هكذا روي عن أبي نصر الدبوسي إنه كان يفعله كذا في الكبرى. وما روي أنهم ألصقوا الكعاب بالكعاب أريد بها الجماعة أي قام كل أحد بجانب الآخر( ص: ٤٦٤ ج: ١)اس سے معلوم ہوا کہ  بحالت قیام  دونوں پیروں میں چار انگل کا فصل  مناسب ہے، اور اسی حکم سے کسی جگہ عورتوں کو مستثنیٰ  نہیں کیا گیا،پس ان کے لیے  بھی یہی مناسب ہے ، ہاں رکوع و سجود کی کیفیت مرد و عورت کی مختلف ہے۔و اللہ اعلم۔ ١٨ شوال سن ٤١۔"

( كتاب الصلاة، بعنوان: عورت قیام کے وقت دونوں پاؤں کے درمیان کتنا فاصلہ رکھے؟، ١ / ٤٦٦، ط: دار العلوم کراچی)

خلاصہ یہ ہے کہ عورتوں کے   لیے نماز میں قیام کی حالت میں  پیروں کے درمیان فاصلہ رکھنا اور ملانا دونوں  جائز ہے، البتہ  معتدل فاصلہ رکھنا زیادہ بہتر ہے۔

المصنف في الأحاديث والآثار لابن ابي شيبة میں ہے:

" ٧٠٦٢ - حدثنا وكيع، عن سفيان، عن ميسرة الهذلي، عن المنهال، عن أبي عبيدة، قال: خرج عبد الله من داره إلى المسجد، وإذا رجل يصلي صافا بين قدميه، فقال عبد الله: «أما هذا فقد أخطأ السنة، ولو راوح بين قدميه كان أحب إلي.

٧٠٦٣ - حدثنا وكيع، عن عيينة بن عبد الرحمن، قال: كنت مع أبي في المسجد، فرأى رجلا صافا بين قدميه، فقال: ألزق إحداهما بالأخرى، لقد رأيت في هذا المسجد ثمانية عشر من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ما رأيت أحدا منهم فعل هذا قط."

(كتاب صلاة التطوع والإمامة وأبواب متفرقة، من كان يراوح بين قدميه في الصلاة، ٢ / ١٠٩، ط: دار التاج - لبنان)

البناية شرح الهداية میں ہے:

"وفي " الواقعات ": ينبغي أن يكون بين قدمي المصلي قدر أربع أصابع اليد لأنه أقرب إلى الخشوع، والمراد من قوله عليه الصلاة والسلام: «الصقوا الكعاب بالكعاب» اجتماعهما."

 (2 / 219،کتاب الصلاة، دار الكتب العلمية - بيروت، لبنان)

فتح القدیر علي الهداية لابن ہمام میں ہے:

"وينبغي أن يكون بين رجليه حالة القيام قدر أربع أصابع، وقال الطحاوي في المقارنة هو الصحيح."

( كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ١ / ٢٩٦، ط: دار الفكر، لبنان)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"و" يسن" تفريج القدمين في القيام قدر أربع أصابع" لأنه أقرب إلى الخشوع والترواح أفضل من نصب القدمين وتفسير التراوح أن يعتمد على قدم مرة وعلى الآخر مرة لأنه أيسر وأمكن لطول القيام.

قوله: ويسن تفريج القدمين في القيام قدر أربع أصابع" نص عليه في كتاب الأثر عن الإمام ولم يحك فيه خلافا وفي الظهيرية وروى عن الإمام التراوح في الصلاة أحب إلي من أن ينصب قدميه نصبا فيما في منية المصلي من كراهة التمايل يمينا ويسارا محمول عن التمايل على سبيل التعاقب من غير تخلل سكون كما يفعله بعضهم حال الذكر لا الميل على إحدى القدمين بالاعتماد ساعة ثم الميل على الأخرى كذلك بل هو سنة ذكره ابن أمير حاج وكذا ما في الهندية عن الظهيرية وما في البناية عن الكشف من كراهة التراوح محمول على ما تقدم ثم هذا التحديد لمن ليس له عذر أما إذا كان به سمن أو أدرة ويحتاج إلى تفريج واسع فالأمر عليه سهل."

( كتاب الصلاة، فصل في بيان سننها، ص: ٢٦٢، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے :

"وينبغي أن يكون بينهما مقدار أربع أصابع اليد لأنه أقرب إلى الخشوع، هكذا روي عن أبي نصر الدبوسي إنه كان يفعله كذا في الكبرى. وما روي أنهم ألصقوا الكعاب بالكعاب أريد بها الجماعة أي قام كل واحد بجانب الآخر كذا في فتاوى سمرقند."

(1 / 444، كتاب الصلاة، ط: سعيد)

الفقه الإسلامي وأدلته میں ہے:

"قال الحنفية: يسن تفريج القدمين في القيام قدر أربع أصابع؛ لأنه أقرب إلى الخشوع.

وقال الشافعية: يفرق بين القدمين بمقدار شبر، ويكره لصق إحدى القدمين بالأخرى حيث لاعذر؛ لأنه تكلف ينافي الخشوع.

وقال المالكية والحنابلة: يندب تفريج القدمين، بأن يكون بحالة متوسطة بحيث لايضمهما ولايوسعهما كثيرا حتى يتفاحش عرفا."

(2/ 70، بيان سنن الصلاة الداخلة فيها، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200667

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں