بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے لیے محرم کے بغیر حج یا عمرہ کا سفر کرنا


سوال

ویسے تو فقہِ حنفی میں عورت بغیر محرم کے سفر نہیں کرسکتی ہے، لیکن اگر ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک عورت عمرہ کا سفر کرنا چاہتی ہو، لیکن اس کے محرم مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں موجود ہیں جو ان کو ائیر پورٹ سے لے لیں گے اور پاکستان سے بھی جو ان کے محرم ہیں وہ ان کو ائیر پورٹ تک پہنچا دیں باقی بیچ کا سفر اس عورت کو تنہا کرنا پڑے گا ۔ دوسری صورت کہ وہ عورت جس کا خاوند مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں موجود ہے، لیکن یہ عورت پاکستان ایئر پورٹ تک اپنے محرم کے ساتھ سفر کرتی ہے، بقایا سفر ایسی عورتوں کے ساتھ کرتی ہے جو کہ باعتماد ہیں اور بزرگ خاتون ہیں، جن کے سبب نامحرم سے اختلاط کی نوبت نہیں آئی گی، ان شاءاللہ ۔ تو ایسی دونوں صورتوں میں کیا اس عورت کے سفر کرنے کی گنجائش ہے؟ 

جواب

اگر  اڑتالیس میل (سوا ستتر کلومیڑ) یا اس سے زیادہ مسافت  کا سفرہو تو   جب تک مردوں میں سے اپنا کوئی محرم  یا  شوہر ساتھ نہ  ہو اس وقت تک عورت کے لیے سفر کرنا  جائز نہیں ہے، حدیث شریف  میں  اس کی سخت ممانعت آئی ہے، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایات ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ تین راتوں کی مسافت کے بقدر سفر  کرے، مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو۔

"عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم»".(الصحیح لمسلم، 1/433، کتاب الحج، ط: قدیمی)

اسی طرح بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ  عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  انہوں نے آپ ﷺ سے سنا کہ آپ فرمارہے تھے: کوئی عورت کسی مرد سے تنہائی میں نہ ملے اور نہ کوئی عورت  بغیر محرم کے سفر کرے، تو حاضرین میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا : اے اللہ کے رسول!  میں نے فلاں جہاد کے سفر میں جانے کے لیے اپنا نام لکھوایا ہے، جب کہ میری بیوی حج کرنے جارہی ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔

" عن ابن عباس رضي الله عنهما، أنه: سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «لا يخلونّ رجل بامرأة، ولا تسافرنّ امرأة إلا ومعها محرم»، فقام رجل فقال: يا رسول الله، اكتتبتُ في غزوة كذا وكذا، وخرجت امرأتي حاجةً، قال: «اذهب فحجّ مع امرأتك»". (صحيح البخاري (4/ 59)
مذکورہ روایات میں غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کس قدر تاکید سے  عورت کے لیے محرم کے بغیر سفر کرنے کی ممانعت آئی ہے کہ کہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے جیسی تاکید کے بعد یہ ممانعت ہے، اور کہیں شوہر کو  رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جہاد جیسے مقدس فریضہ  کے بجائے اس کی بیوی کے ساتھ حج کرنے کو کہا جارہا ہے، نیز حج کے فرض ہونے کے بعدبھی  عورت کے لیے محرم کے بغیر اس کی ادائیگی لازم نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے یہ حکم ہے کہ اگر مرتے دم تک محرم میسر نہ ہوتو وہ مرنے سے پہلے حج کی وصیت کرجائے ، چہ جائے کہ نفلی عمرہ کے لیے محرم کے بغیر  سفر کیا جائے، نیز عمرہ انسان عبادت اور اللہ کی رضا کے حصول کے لیے کرتا ہے ، اور نبی کریم ﷺ کے ارشادات کے نافرمانی کرکے اللہ کے رضا  اور ثواب کی امید  کرنا عبث اور ناسمجھی ہے، نیز  شریعتِ مطہرہ میں عورت کے لیے سفر میں محرم  کی شرط  اس کی عصمت  وناموس کی حفاظت  اور بدگمانی، بدنامی اور تہمت سے  بچانے کے لیے ہے، جس کے بغیر عورت کی کوئی قیمت نہیں ہے،  اس لیے عورتوں کو چاہیے کہ  شریعت کی احکام کی قدر کریں  اور شریعت کو اپنا محسن سمجھیں۔

 لہذا سفر خواہ حج کا ہو یا عمرہ کا،  اور خواہ تنہا سفر کرے  یا عورتوں کے قافلے کے ساتھ ، خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی بہرصورت  عورت کے لیے محرم کے بغیر  سفر کرنا جائز نہیں ہے، وجہ یہ ہے کہ  سفر میں عورت کی عصمت وناموس کی  جس قدر حفاظت  شوہر اور محرم  کرسکتا ہے وہ دیگر  عورتیں  نہیں کرسکتی ہیں، بلکہ خود  وہ عورتیں بھی عصمت وپاک دامنی کی  حفاظت کے لیے دوسروں کی محتاج ہیں۔ 

باقی یہ بات کہ ائیر پورٹ تک محرم چھوڑنے کے لیے آجائے گا اور وہاں ائیر پورٹ سے دوسرا محرم  ان کو لے لے گا، تو اس بارے میں یہ وضاحت ضروری ہے شریعت میں عورت کے لیے محرم کے بغیر  شرعی سفر کرنے کی ممانعت ہے،  یہ ممانعت صرف سفر  حج عمرہ کے ساتھ نہیں ہے،  اور یہاں شرعی سفر کی مقدار خواہ جہاز ہی ذریعے کیوں نہ ہو، محرم کے بغیر ہی سفر ہوگا، لہذا اس کی گنجائش نہیں ہے۔

     بدائع الصنائع میں ہے:

 "(وأما) الذي يخص النساء فشرطان: أحدهما أن يكون معها زوجها أو محرم لها فإن لم يوجد أحدهما لايجب عليها الحج. وهذا عندنا، وعند الشافعي هذا ليس بشرط، ويلزمها الحج، والخروج من غير زوج، ولا محرم إذا كان معها نساء في الرفقة ثقات، واحتج بظاهر قوله تعالى: ﴿ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلاً﴾ [آل عمران: 97]. وخطاب الناس يتناول الذكور، والإناث بلا خلاف فإذا كان لها زاد، وراحلة كانت مستطيعة، وإذا كان معها نساء ثقات يؤمن الفساد عليها، فيلزمها فرض الحج.(ولنا) ما روي عن ابن عباس - رضي الله عنه - عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ألا «لا تحجن امرأة إلا ومعها محرم» ، وعن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا تسافر امرأة ثلاثة أيام إلا ومعها محرم أو زوج»؛ ولأنها إذا لم يكن معها زوج، ولا محرم لا يؤمن عليها؛ إذ النساء لحم على وضم إلا ما ذب عنه، ولهذا لا يجوز لها الخروج وحدها. والخوف عند اجتماعهن أكثر، ولهذا حرمت الخلوة بالأجنبية، وإن كان معها امرأة أخرى، والآية لا تتناول النساء حال عدم الزوج، والمحرم معها؛ لأن المرأة لا تقدر على الركوب، والنزول بنفسها فتحتاج إلى من يركبها، وينزلها، ولا يجوز ذلك لغير الزوج، والمحرم فلم تكن مستطيعة في هذه الحالة فلا يتناولها النص".(2/123، کتاب الحج، سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں