بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا چیف جسٹس بننا


سوال

کیا شرعی لحاظ سے عورت ہائی کورٹ میں چیف جسٹس بن سکتی ہے؟

جواب

ایسے تمام مناصب جن میں ہرکس و ناکس کے ساتھ اختلاط اور میل جول کی ضرورت پیش آتی ہے، شریعتِ اسلامی نے ان کی ذمہ داری مردوں پر عائد کی ہے، اور عورتوں کو اس سے سبک دوش رکھاہے، انہی ذمہ داریوں میں سے ایک جج اور قاضی بننے کی ذمہ داری ہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم کے زمانے اور اسلام کے ابتدائی ادوار میں بڑی فاضل خواتین موجود تھیں، مگر کبھی کسی خاتون کو جج اور قاضی بننے کی زحمت نہیں دی گئی، چناں چہ اس پر اَئمہ اَربعہ کا اتفاق ہے کہ عورت کو قاضی اور جج بنانا جائز نہیں، اَئمہ ثلاثہ (امام مالک، امام شافعی اور امام احمد ) رحمہم اللہ کے نزدیک تو کسی معاملے میں اس کا فیصلہ نافذ ہی نہیں ہوگا، اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک حدود و قصاص کے ماسوا میں اس کا فیصلہ نافذ ہوجائے گا، مگر اس کو قاضی بنانا گناہ ہے۔

فقہِ حنفی کی مشہور کتاب" درمختار" میں ہے:

          "(والمرأة تقضي في غير حد وقود وإن أثم المولي لها)؛ لخبر البخاري: «لن يفلح قوم ولّوا أمرهم امرأةً»".           (شامی طبع سعید  ج:۵ ص:۴۴۰)

          ترجمہ:… اور عورت حد و قصاص کے ماسوا میں فیصلہ کرسکتی ہے، اگرچہ اس کو فیصلے کے لیے مقرّر کرنے والا گناہ گار ہوگا؛ کیوں کہ صحیح بخاری کی حدیث ہے : وہ قوم کبھی فلاح نہیں پائے گی جس نے اپنا معاملہ عورت کے سپرد کردیا۔
لہذا  شرعی لحاظ سے عورت کو  چیف جسٹس بنانا  درست نہیں ہے۔(مستفاد: آپ کے مسائل اور ان کا حل(8/617)، حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202325

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں