بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانا جائز ہے


سوال

عورت اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگا سکتی ہے کہ نہیں مثلاًعائشہ یوسف؟

جواب

عورت کے نام کے ساتھ  والدکا نام لگے یا شوہر کا،  درحقیقت مقصد اس سے تعارف اور شناخت  ہے، اور یہ  شناخت ان دو طریقوں کے علاوہ بھی ہوسکتی ہے۔ قرآن وحدیث میں بعض عورتوں کا تعارف اللہ نے ان کے شوہروں کی نسبت سے کرایا ہے۔قرآن کریم میں ہے:

﴿ اِمْرَاَةَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَةَ لُوْطٍ، کَانتا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ ﴾(التحریم:10)ترجمہ: یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی۔الخ

حدیث میں ہے:  "جَاءَتْ زَینب امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، تستأذن عَلیه، فَقیل: یا رَسُولَ الله، هذه  زینَبُ، فَقَالَ: أَي الزیانِبِ؟ فَقِیلَ: امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: نَعَمْ، ائْذَنُوا لَها“.(بخاری و مسلم) حضرت ابوسعید خُدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زینب جو امراۃ ابنِ مسعود  ہیں، یعنی حضرت ابنِ  مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں اور اجازت طلب کی، پوچھا گیا کون سی زینب؟ جواب دیا گیا کہ: امراۃ ابنِ مسعود. آپ نے فرمایا کہ: ہاں! اُسے آنے کی اجازت ہے.

اسی طرح آدمی کی پہچان بعض مرتبہ وَلاء یعنی جس نے غلام کو آزاد کیا ہے، اس سے ہوتی ہے، جیسے: "عکرمَة مولی ابنِ عباس“، کبھی پیشہ کے بیان سے ہوتی ہے، جیسے:"قدوری" وغیرہ،  کبھی لقب  و  کنیت  سے ہوتی ہے، جیسے: "أبو محمّد أعمَش“، کبھی ماں سے ہوتی ہے حالاں کہ باپ معروف ہوتا ہے جیسے "إسماعیل ابنِ عُلـیَّه“، وغیرہ وغیرہ.

اس لیے یہ کوئی ایسا مسئلہ نہٰیں جس سے کوئی شرعی ضابطہ ٹوٹتا ہو، مقصد تعارف اور شناخت ہے۔

باقی اگرکسی کو یہ شبہ ہوکہ بعض احادیث میں والد کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اس بارے میں وعیدیں بھی آئی ہیں، تو خوب واضح ہونا چاہیے کہ ان احادیث کا مقصد یہ ہے کہ اپنے والد کو چھوڑ کر کسی اور شخص کی طرف اپنی نسبت اس طور پر کرنا کہ وہ دوسرا شخص والد سمجھا جائے یا اپنے والد کی نفی کرکے دوسرے کو والد کہنا ممنوع ہے۔ جہاں یہ شبہ نہ ہو تو کسی کی طرف اولاد والی نسبت کرنے کی بھی گنجائش ہوگی، مثلاً: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث مبارکہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کو پیارا بیٹا کہنا ثابت ہے۔

جب کہ بیوی کا نام شوہر کی طرف منسوب کرنے میں کسی طرح بھی ولادت کی نسبت نہیں سمجھی جاتی، لہٰذا یہ نسبت حدیث کی ممانعت میں داخل نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200811

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں