بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

علماء کے بے توقیری کرنا


سوال

کسی عالم کو عام آدمی کی طرف سے الزام لگانا اور  منافق کہنا اس کے بارے میں کیا حکم اور اس کا وبال کیا ہے؟

جواب

کسی عام مسلمان کو بھی منافق کہنا بہت قبیح بات ہے چہ  جائے کہ کسی عالم کو  منافق کہا جائے۔ اس میں کئی پہلو سے گناہ اور قباحت جمع ہوگئی ہے:

1- کسی مسلمان کو منافق کہنا گالی ہونے کی وجہ سے فسق ہے۔ 

2- کسی کے عقیدے پر یہ ایسا حملہ اور الزام ہے جس کی حقیقت سوائے اللہ تعالیٰ کے اب کوئی نہیں جانتا، اس اعتبار سے اس کی شناعت مزید بڑھ جاتی ہے۔

3- اہلِ علم کی بے حرمتی گم راہی اور خدا کی دشمنی مول لینے کا سبب ہے۔ بعض بزرگوں سے منقول ہے کہ کسی بھی مسلمان کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا مردہ بھائی کا گوشت کھانے کی طرح ہے، اور علماء کی برائی کرنا ایسا ہے جیسے مردہ بھائی کا زہریلا گوشت کھانا۔ یعنی علماء کی غیبت یا برائی کی صورت میں محرومی اور تباہی تقریباً یقینی ہے۔

حضرت عون بن عبد اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ میں نے امیر المومنین عمر بن عبد العزیز سے عرض کیا:
’’ کہا جاتا ہے کہ اگر تم میں ایک عالم بننے کی صلاحیت ہو تو جہاں تک ممکن ہو , عالم بننے کی کوشش کرو، اور اگر تم عالم نہیں بن سکتے تو پھر ایک طالب علم بنو، اور اگر طالب علم بننے کی بھی صلاحیت نہیں ہے تو پھر ان سے (علماء و طالب علم) سے محبت کرو، اگر تم ان سے محبت کے قابل بھی نہیں ہو تو پھر (کم از کم) ان سے نفرت مت کرو‘‘. 
عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا:
’’ سبحان اللہ ! اللہ نے اس (آخری ) بندے کو بھی مہلت دی ہے‘‘.[ ابن عبدالبر جامع بيان العلم وفضله ، ١.١٤٢-١٤٣]

یعنی روایت کی رو سے مسلمان بندے کو چاہیے کہ یا تو وہ عالم بنے، یا طالبِ علم بنے یا ان سے محبت کرنے والا، اور آخری صورت گنجائش کی یہ دی گئی ہے کہ کم از کم علماء و طلبہ دین سے نفرت نہ رکھے۔ اگر پانچویں قسم بنے گا تو ہلاک ہوجائے گا۔

حضرت عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’یہ بات درست ہے کہ ایک عقل مند شخص تین طرح کے لوگوں کی بے قدری نہ کرے:
علماء کی، حکم رانوں کی اور اپنے مسلمان بھائی کی. 
جو شخص بھی علماء کی بے قدری کرے گا وہ اخروی زندگی سے محروم رہے گا، جو شخص بھی حکم رانوں کی بے قدری کرے گا وہ دنیوی زندگی سے محروم رہے گا اور جو شخص بھی اپنے بھائی کی بے قدری کرے گا وہ اچھے اخلاق و کردار سے محروم رہے گا‘‘. [الذهبي، سير أعلام النبلاء ١٧:٢٥١]
مشکاۃ شریف میں ہے:

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے‘‘۔ (بخاری ومسلم)

دوسری روایت میں ہے:

’’حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے جانتے بوجھتے کسی دوسرے کو باپ بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہیے اور جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حال آں کہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا‘‘۔ (صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 219 ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200445

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں