بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

علمِ دین فرضِ عین اور فرضِ کفایہ / علم کے بارے میں آخرت میں جواب دہی


سوال

کیا مرنے کے بعد جو سوالات ہوں گے، ان میں علم حاصل کرنے سے متعلق بھی سوالات ہوں گے؟ مثلاً قرآن سمجھ کر پڑھنا یا قرآن میں آنے والے احکامات اور مسائل کا معلوم ہونا یا احادیث کا علم جیسے نماز کے فرائض، واجبات کا معلوم ہونا وغیرہ یا کوئی اور علمی سوالات؟

جواب

ہر مسلمان پر  اتنا علم حاصل کرنا کہ جس سے وہ فرائض ادا کرسکے اور حرام چیزوں سے بچ سکے اور اسلام کی بنیادی ضروری باتیں معلوم کرلے، یہ فرضِ عین ہے، اور باقی علوم کی تفصیلات،  قرآن و حدیث کے تمام معارف و مسائل،  پھر ان سے نکالے ہوئے اَحکام و شرائع کی پوری تفصیل یہ نہ ہر مسلمان کی قدرت میں ہے نہ ہر ایک پر فرضِ عین ہے، البتہ پورے عالمِ اسلام کے ذمہ فرضِ کفایہ ہے، ہر شہر میں ایک عالم ان تمام علوم و شرائع کا ماہر موجود ہو تو باقی مسلمان اس فرض سے سبک دوش ہوجاتے ہیں، اور جس شہر یا قصبہ میں ایک بھی عالم نہ ہو تو شہر والوں پر فرض ہے کہ اپنے میں سے کسی کو عالم بنائیں، یا باہر سے کسی عالم کو بلا کر اپنے شہر میں رکھیں؛ تاکہ ضرورت پیش آنے پر باریک مسائل کو اس عالم سے فتوٰی لے کر سمجھ سکیں، اور عمل کرسکیں۔

 اس  لیے علمِ دین میں فرضِ عین اور فرضِ کفایہ کی تفصیل یہ ہے :
فرضِ عین : ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے کہ اسلام کے عقائدِ صحیحہ کا علم حاصل کرے اور طہارت، نجاست کے احکام سیکھے، نماز، روزہ اور تمام عبادات جو شریعت نے فرض و واجب قرار دی ہیں ان کا علم حاصل کرے، جن چیزوں کو حرام یا مکروہ قرار دیا ہے ان کا علم حاصل کرے، جس شخص کے پاس بقدرِ نصاب مال ہو اس پر فرض ہے کہ زکاۃ  کے مسائل و احکام معلوم کرے ، جن کو حج پر قدرت ہے ان کے لیے فرضِ عین ہے کہ حج کے اَحکام و مسائل معلوم کرے، جس کو بیع و شرا  کرنا پڑے یا تجارت و صنعت یا مزدوری و اجرت کے کام کرنے پڑیں اس پر فرضِ عین ہے کہ بیع و اجارہ وغیرہ کے مسائل و احکام سیکھے، جب نکاح کرے تو نکاح کے اَحکام و مسائل اور طلاق کے اَحکام و مسائل معلوم کرے، غرض جو کام شریعت نے ہر انسان کے ذمہ فرض و واجب کیے ہیں ان کے اَحکام و مسائل کا علم حاصل کرنا بھی ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے ۔
فرض کفایہ: پورے قرآنِ مجید کے معانی و مسائل کو سمجھنا، تمام احادیث کو سمجھنا اور ان میں معتبر اور غیر  معتبر کی پہچان پیدا کرنا، قرآن و سنت سے جو اَحکام و مسائل نکلتے ہیں ان سب کا علم حاصل کرنا، اس میں صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین کے اقوال و آثار سے واقف ہونا یہ اتنا بڑا کام ہے کہ پوری عمر اور سارا وقت اس میں خرچ کرکے بھی پورا حاصل ہونا آسان نہیں، اس لیے شریعت نے اس علم کو فرضِِ کفایہ قرار دیا ہے، کہ بقدرِ ضرورت کچھ لوگ یہ سب علوم حاصل کرلیں تو باقی مسلمان سبک دوش ہوجائیں گے ۔ (مستفاد از معارف القرآن سورۃ توبہ ، 122)
حاصل یہ ہے کہ جس علم کا حاصل کرنا مسلمان پر فرض ہو اس میں سستی یا کوتاہی کی وجہ سے آخرت میں جواب دہی کرنی ہوگی اور جو علم مسلمان پر فرض نہیں ہے، بلکہ مستحب ہیں اس کے حاصل کرنے سے فضائل تو حاصل ہوں گے، البتہ اس کے حاصل نہ کرنے پر آخرت میں پکڑ نہیں ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200202

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں