بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

علم دین حاصل کرنے میں مشغولیت کی بنا پر نماز کے لیے گھر میں جماعت کرانا


سوال

میں رات میں نوکری کے بعد درس نظامی کر رہا ہوں،  جس کی کچھ کلاسز  جا کے لیتا ہوں اور کچھ آن لائن ، آن لائن کلاس کے درمیان عشاء  کا وقت ہو جاتا ہے ، ایسے میں میں کیا کروں؟  کلاس لیتا رہوں یا نماز کے لیے جاؤں؟

جو لوگ وہا ں موجود ہوتے ہیں وہ کلاس کے بعد جماعت کر لیتے ہیں. جب کہ  میں آن لائن ہونے کی وجہ سے گھر میں بیوی کو ملا کے جماعت کر لیتا ہوں. اساتذہ کہتے ہیں کہ  احناف میں علم حاصل کرنا مقدم ہے نماز سے!

جواب

نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں جاکر ادا کرنا حکم کے اعتبار سے واجب کے قریب ہے، مستقل طور پر مسجد سے الگ جماعت کرانا بہت برا ہے، اگر کبھی عذر کی وجہ سے اتفاقاً جماعت رہ جائے  تو اس صورت میں گھروالوں کے ساتھ  جماعت کے ساتھ نماز ادا کرکے جماعت کی فضیلت حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن اس کی مستقل عادت بناناقطعاً  درست نہیں ہے،  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺارشاد فرماتے ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ چند جوانوں سے کہوں کہ بہت سا ایندھن اکٹھا کرکے لائیں، پھر میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو بلاعذر گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں اور جا کران کے گھروں کو جلادوں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ عشاء کی نماز  باقاعدہ مسجد جاکر باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کریں،  اور نماز کے وقت پڑھائی کو روک دیں، علمِ دین حاصل کرنے کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ اللہ کے اوامر کو پہچان کر اس پر عمل کرنا اور اس کے نواہی کو پہچان کر اس سے روکنا، اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو  ترک کرکے دین کا علم حاصل کرنا بے فائدہ ہے۔

باقی جہاں تک یہ بات ہے کہ علم حاصل کرنا نماز سے مقدم ہے تو اس سے مراد نفل نماز ہے،  یعنی نفلی عبادتوں  میں مشغولیت سے زیادہ علمِ دین حاصل کرنے میں مشغول ہونا زیادہ افضل ہے۔ اس سے فرض نمازیں مراد نہیں ہیں۔

 اعلاء السنن میں ہے:

’’قلت دلالته علی الجزء الأول ظاهرة حیث بولغ في تهدید من تخلف عنها وحکم علیه بالنفاق، ومثل هذا التهدید لایکون إلا في ترك الواجب، ولایخفی أن وجوب الجماعة لو کان مجرداً عن حضور المسجد لماهم رسول اﷲ ﷺ بإضرام البیوت علی المتخلفین لاحتمال أنهم صلوها بالجماعة في بیوتهم فثبت أن إتیان المسجد أیضاً واجب کوجوب الجماعة، فمن صلاها بجماعة في بیته أتی بواجب وترك واجباً آخر‘‘. (۱۸۶/۴)

وفیه أیضاً:

’’قلت: وهذا صریح في أن وجوب الجماعة إنما یتأدی بجماعة المسجد لا بجماعة البیوت ونحوها، فما ذکره صاحب القنیة اختلف العلماء في إقامتها في البیت والأصح أنها کإقامتها في المسجد إلا في الفضیلة وهو ظاهر مذهب الشافعي اهـ. کذا في حاشیة البحر لابن عابدین، لایصح مالم ینقل نقلاً صریحاً عن أصحاب المذهب ویرده ماذکرنا من الأحادیث في المتن فالصحیح أن الجماعة واجبة مع وجوب إتیانها في المسجد، ومن أقامها في البیت وهو یسمع النداء فقد أساء وأثم‘‘. (۱۸۸/۴)

غاية البيان شرح زبد ابن رسلان (ص: 19):
’’ وَقَالَ سُفْيَان: مَا أعلم عملاً أفضل من طلب الْعلم، وَقَالَ الشَّافِعِي رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ:  طلب الْعلم أفضل من صَلَاة النَّافِلَة‘‘.

حاشيتا قليوبي وعميرة (4/ 215):
’’ فَائِدَةٌ: قَالَ الشَّافِعِيُّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -: طَلَبُ الْعِلْمِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاةِ النَّافِلَةِ وَالْجِهَادِ‘‘. 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200700

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں