بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عصر کے بعد مطالعہ اور پڑھائی کی ممانعت اور جسمانی مشغلہ اختیار کرنے کا حکم


سوال

کچھ دینی لوگ یہ کہتے ہیں کہ عصر اور مغرب کے درمیان پڑھائی یا کوئی دماغی کام نہیں کرنا چاہیے، بلکہ کسی جسمانی سرگرمی میں مشغول ہونا چاہیے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

نمازِ عصر کے بعد پڑھائی یا کوئی دماغی کام کرنا شرعاً منع نہیں ہے، اور نہ اس وقت جسمانی ورزش یا کھیل کود لازم ہے، اس متعلق صحیح احادیثِ مبارکہ سے کوئی حکم ثابت نہیں ہے، البتہ بعض سلفِ صالحین نے طبی نقطہ نظر سے عصر کے بعد  مطالعہ وغیرہ کرنے سے منع کیا ہے، اس سے بینائی کم زور ہوتی ہے، امام احمد بن حنبل اور امام شافعی رحمہمااللہ کے بارے میں منقول ہے کہ یہ حضرات عصر کے بعد کتب پڑھنے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔  اور دن بھر تھکاوٹ اور پڑھائی کرنے سے طبیعت میں جو اکتاہٹ آجاتی ہے، عصر کے بعد ذرا چہل قدمی یا جسمانی ورزش یا کھیل وغیرہ سے طبیعت میں نشاط اور چستی آجاتی ہے، جس سے مغرب اور عشاء کے بعد  پڑھائی وغیرہ  میں طبعیت زیادہ لگتی ہے۔  جب کہ دیگر بعض سلفِ صالحین سے عصر کے بعد بھی تدریس و مطالعہ وغیرہ ثابت ہے۔ (قیمۃ الزمن عند  العلماء، ذکر ابی حاتم الرازی، و ابنہ عبدالرحمٰن بن ابی حاتم، ص:73، طبعہ جدیدۃ)

 "المقاصدالحسنۃ "میں ہے:

" حديث: من أكرم حبيبتيه فلايكتب بعد العصر، ليس في المرفوع، ولكن قد أوصى الإمام أحمد بعض أصحابه أن لاينظر بعد العصر في كتاب، أخرجه الخطيب أو غيره، وقال الشافعي فيما رواه حرملة بن يحيى كما أخرجه البيهقي في مناقبه: الوراق إنما يأكل دية عينيه". (1/626)

"کشف الخفاء" میں ہے:

" قال: وقد أوصى الإمام أحمد بعض أصحابه أن لاينظر بعد العصر إلى كتاب، أخرجه الخطيب قال: وهو من كلام الطب، كما قال الشافعي : الوراق إنما يأكل من دية عينيه". (2/222داراحیاء التراث)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201339

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں