بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کے دوران ملازمت کے لیے نکلنا


سوال

میرا سوال عدت کی مدت کے متعلق ہے ،میری شادی کو بارہ سال ہوئے ہیں، بیٹے کی پیدائش کے بعد سے نو سال سے شوہر سے علیحدہ رہ رہی ہوں ،اس پورے دوران شوہر سے کوئی تعلق نہیں ہے، نہ ہی مالی، نہ سوشل نہ ہی کوئی ازدواجی۔ میں نے کورٹ میں خلع کا کیس کیا ہوا ہے، میں ایک بڑی فرم میں جاب کرتی ہوں، اپنے بچے اور گھروالوں کی اکیلی کفیل ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ خلع کے بعد عدت کتنی مدت کی ہوگی؟ نوکری کو ملحوظ خاطر رکھا جائےتو گھر کے اخراجات میری ذمہ داری ہے اور ہمارا فزیکل کوئی رشتہ نہیں ہے پچھلے نو سال سے۔

جواب

سوال کے جواب سے قبل یہ سمجھ لیں کہ:

1۔  خلع بھی دیگر مالی معاملات کی طرح ایک معاملہ ہے، جس میں فریقین یعنی میاں بیوی کی باہمی رضامندی ضروری ہے۔کوئی ایک فریق بھی راضی نہ ہوتو خلع کا وقوع نہیں ہوتا ۔ لہٰذا عدالت سے رجوع کے بعد اگر عدالت شوہرکی رضامندی کے بغیر خلع کی ڈگری جاری کرتی ہے تو اس طرح یک طرفہ خلع کی ڈگری جاری کرنا علیحدگی کے لیے کافی نہیں،اور اس ڈگری کی بنیاد پر خاتون اپنے شوہر سے آزاد اور دوسری جگہ نکاح کرنے کی مجاز نہیں ہوتی۔

2۔خلع کے لیے شرعی وجوہات کاہوناضروری ہے، بغیر کسی شرعی مجبوری کے خلع یاطلاق کا مطالبہ کرناشریعت میں پسندیدہ نہیں ہے،طلاق اور علیحدگی کو مبغوض ترین شے قراردیاگیاہے۔

آپ نے خلع طلب کرنے کی وجوہات ذکر نہیں کیں، تاہم اگر ایسی  شرعی مجبوری ہو کہ شوہر کے ساتھ آپ کا کسی طرح نباہ ممکن نہ ہو اور باہمی صلح کی کوئی صورت باقی نہ ہوتو شوہر کو خلع پرراضی کرکے خلع حاصل کیاجائے۔شوہر کے رضامندی سے خلع ہوجائے تو اس کے بعد عدت لازم ہوگی۔

جس طرح طلاق کے بعد عدت ہوتی ہےاسی طرح خلع کے بعدبھی عدت لازم ہے،اوروہ عورت جسے ماہوری آتی ہوخلع یاطلاق کی صورت میں جدائی کے بعداس کی عدت تین ماہواریاں ہے،اگرماہواری نہ آتی ہوتوقمری حساب سے تین مہینے عدت گزارنا لازم ہے۔

عدت کے دوران عورت کو بغیر شدیدجانی ومالی نقصان کے اندیشے کے گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔لہذا اگر آپ اپنی ملازمت سے رخصت لے کر عدت کے ایام گھر پر گزارسکتی ہیں  تو عدت میں ملازمت کے لیے جاناجائزنہیں،اور اگر خرچ کاکوئی انتظام نہ ہو ،صرف ملازمت ہی کی صورت میں خرچ چل سکتاہے تو اس صورت میں دن کے وقت میں بقدر ضرورت جانے کی اجازت ہوگی اور رات سے پہلے پہلے واپس اپنے گھر پر پہنچناضروری ہوگا۔"البحرالرائق " میں ہے:

'' (قوله: ومعتدة الموت تخرج يوماً وبعض الليل ) لتكتسب لأجل قيام المعيشة ؛ لأنه لا نفقة لها حتى لو كان عندهاكفايتها صارتكالمطلقة فلا يحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلاً ولا نهاراً .والحاصل: أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها كذا في فتح القدير''۔(4/166،دارالمعرفہ)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143904200069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں