بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالتی خلع کا حکم


سوال

 لڑکی اپنے میکے کے اصرار پر شادی کرتی ہے اور اس کی پسند کہیں اور تھی۔ 8 سال شادی کے بعد  اور 4اولاد کے ساتھ میکے عید ملنے جاتی ہے اور گھر والوں کی مدد سے عدالتی خلع کا کیس کرتی ہے اور وکیل کے بتائے  ہوئے طریقوں سے جھوٹے الزامات لگا کر خلع لیتی ہے۔ شوہر آخری پیشی میں حاضر ہوتا ہے اور تمام الزامات کا رد کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ لڑکی کے باپ اور بھائی نے خلع لینے کے ساتھ ساتھ طلاق کا حق مانگا ہے، جس کے انکار پر لڑکی جج کے سامنے خلع مانگتی ہے ۔ اور جج خلع دے دیتی ہے۔ شوہر بیوی کو واپس رکھنے پر آمادہ ہے۔ بیوی بچوں کو ملنے نہیں دیتی اور نہ ہی کوئی  رابطہ بچوں سے ہونے دیتی ہے۔ عدالت کے ذریعے بچوں سے ملنے کا کہتی ہے اور من پسند رقم شوہر سے نکلوانا چاہتی ہے ۔ ایسی خلع کے بارے میں کیا حکم ہے جس میں عورت آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرنے کے بجائے دھوکے سے عدالت کے ذریعے سے خلع لے اور صرف اپنی خود غرضی کے لیے بچوں کو باپ سے دور کرے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں ایسی خلع معتبر ہے جس میں شوہر بیوی کو رکھنے پر آمادہ ہو تا کہ بچوں کو دونوں والدین کا پیار مل سکے؟

جواب

واضح رہے خلع بھی دیگر مالی معاملات کی طرح ایک معاملہ ہے جس میں فریقین کی باہمی رضامندی ضروری ہے ؛  اس لیے کسی ایک فریق کی رضامندی کے بغیر خلع کا وقوع نہیں ہوتا ۔ لہٰذا  صورتِ مسئولہ میں عدالت کا خلع کی ڈگری جاری کرنا علٰحیدگی کے لیے کافی نہیں ، کیوں کہ اس میں شوہر کی رضامندی شامل نہیں ہے ۔ اس لیے مذکورہ بیان کی حد تک عدالتی فیصلہ شرعاً موثر اور نافذ العمل نہیں ہے ۔ مذکورہ لڑکی بدستور اپنے شوہر کے نکاح میں ہے۔   فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200011

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں