بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عبد الوھاب نجدی اور ان کے متبعین کا حکم


سوال

عبد الوہاب نجدی کے بارے میں علماءِ دیوبند کا موقف کیا ہے؟

جواب

محمد بن عبد الوہاب نجدی  اور ان کے متبعین مسلمان ہیں، یہ بعض مسائل میں متشدد اور متفرد ہیں، حنبلی مسلک کے پیروکار کہلاتے ہیں، لیکن بہت سے مسائل میں ان کا تفرد ہے، اور  چند جزوی باتوں میں ان کا مؤقف اہلِ سنت والجماعت سے بھی مختلف ہے، مثلاً توسلِ شرعی کا انکار، رسولِ اقدس ﷺ کی قبر کی زیارت کے لیے سفر کرنے کو حرام جاننا، بعض آیاتِ قرآنیہ کی بے محل تاویل کرنا وغیرہ،  اس لیے ان کا ان مسائل میں اتباع جائز  نہیں ہے، البتہ  ان کی تکفیر بھی درست نہیں ہے، علامہ شامی رحمہ اللہ نے  ان کو خوارج میں شمار کیا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے خلافت اور امام المسلمین کے خلاف بغاوت کی تھی، اور بے جا تشدد کرتے تھے،  لیکن ان کے تمام عقائد اصل خوارج جیسے نہیں تھے، بلکہ بعض چیزوں میں خوارج جیسے افعال کی بنا پر  علامہ شامی رحمہ اللہ نے انہیں خوارج سے تعبیر کیا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 262):
"مطلب في أتباع عبد الوهاب الخوارج في زماننا (قوله: ويكفرون أصحاب نبينا صلى الله عليه وسلم) علمت أن هذا غير شرط في مسمى الخوارج، بل هو بيان لمن خرجوا على سيدنا علي -رضي الله تعالى عنه -، وإلا فيكفي فيهم اعتقادهم كفر من خرجوا عليه، كما وقع في زماننا في أتباع عبد الوهاب الذين خرجوا من نجد وتغلبوا على الحرمين وكانوا ينتحلون مذهب الحنابلة، لكنهم اعتقدوا أنهم هم المسلمون وأن من خالف اعتقادهم مشركون، واستباحوا بذلك قتل أهل السنة وقتل علمائهم حتى كسر الله تعالى شوكتهم وخرب بلادهم وظفر بهم عساكر المسلمين عام ثلاث وثلاثين ومائتين وألف (قوله: كما حققه في الفتح) حيث قال: وحكم الخوارج عند جمهور الفقهاء والمحدثين حكم البغاة. وذهب بعض المحدثين إلى كفرهم. قال ابن المنذر: ولا أعلم أحدا وافق أهل الحديث على تكفيرهم، وهذا يقتضي نقل إجماع الفقهاء".

فيض الباري على صحيح البخاري (1/ 252):
"أما محمد بن عبد الوهاب النجدي فإنه كان رجلاً بليداً قليل العلم، فكان يتسارع إلى الحكم بالكفر ولاينبغي أن يقتحم في هذا الوادي إلا من يكون متيقظاً متقناً عارفاً بوجوه الكفر وأسبابه". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201181

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں