بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عام چھالیہ کھانے کا حکم


سوال

 ویب سائٹ پر موجود ایک سوال کے جواب میں عام چھالیہ بنانے اور کھانے کو جائز قرار دیا گیا ہے (حوالہ آخر میں درج ہے)۔ سوال یہ ہے کہ: کیا اس ضمن میں تحقیق انجام دی گئی ہے کہ عام چھالیہ کھانے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا؟ حوالہ: http://www.banuri.edu.pk/readquestion/%DA%86%DA%BE%D8%A7%D9%84%DB%8C%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%AF%D9%B9%DA%A9%D8%A7-%DA%A9%DA%BE%D8%A7%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%D8%AD%DA%A9%D9%85/2017-03-19

جواب

بعض حکماء واطباء نے عام چھالیہ کے فوائد بھی بتلائے ہیں، ہندوستان کے ایک حکیم محمد رضی الدین معظم پان سے متعلق  اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

چھالیہ (NUT) :

ڈاکٹری رائے : مندمل زخم ہے ۔ خون کے بہنے کو روکتی ہے ۔ اعضاء تشیج کو روکتی ہے ۔ دانتوں کو صاف اور مضبوط کرتی ہے ۔ مگر زیادہ استعمال ان کی جڑوں کو کمزور کرتا ہے۔ منہ کی تمام بیماریوں کے لیے  مفید ہے ۔ اس میں ایک جوہر پایا جاتا ہے  جس کو اریکولین Arecoline کہتے ہیں یہ جو ہر معدہ اور آنتوں کی حرکت میں اضافہ کرتا ہے ۔دل کی حرکت کو سست کرتا ہے ۔ آنکھ کی پتلی کو سکیڑتا ہے ۔ دست آویز ہے ۔ چھالیہ کا برادہ آنتوں کے کیڑوں کو مارتا ہے ۔ چھالیہ کا برادہ اگر زیادہ مقدار میں کھالیا جائے تو اس کے اثر سے سانس کی نالی کی سطح سے میونس(MUCIN) ایک قسم کا چکنا مادہ بہت زیادہ خارج ہوتا ہے ۔ اور دم گھٹنے لگتا ہے چھالیہ کا زیادہ استعمال اختلاج بڑھادیتا ہے ۔ جس سے آنکھوں میں اندھیری چھا جاتی ہے ۔ چکر محسوس ہونے لگتا ہے ۔ اس لیے  استعمال میں اعتدال ضروری ہے۔

یونانی رائے : قابض ہے مواد کو پختہ کرتی ہے ۔ دل ‘ باہ اور ڈھیلے اعضاء کو قوت بخشتی ہے ۔ دماغ پر بخارات چڑھنے کی مانع ہے ۔ منجن میں استعمال کرنا مقوی دندان ہے ۔( بحوالہ جہان اردو، ستمبر، ۲۰۱۵)

اس لیے عام چھالیہ کے استعمال میں حرج نہیں، البتہ اگر اتنی کثرت سے استعمال کی جائے کہ نقصان دہ ہو تو پھر اس کا استعمال بھی جائز نہیں یاکسی شخص کے لیے مضر ہو تو اس کے لیے بھی استعمال جائزنہ ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143807200039

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں