بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلبہ سے اصلاح کی خاطر مالی جرمانہ لینا


سوال

مدرسہ میں اگر طلبہ قانون کی خلاف ورزی کریں /یا فرض نماز باجماعت ادا نہ کریں تو کیا ان سے فائن (جرمانہ پیسوں) میں وصول کرنا جائز ہے؟  اور اگر جائز ہے تو اس کو مدرسہ کے اخراجات میں صرف کرنا کیسا ہے؟ اور اگر بچہ نابالغ ہو تو اس کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

مدرسہ کے قوانین کی خلاف ورزی یا نماز میں غیرحاضری  کی وجہ سے طلبہ سے لی جانے والی رقم ’’مالی جرمانہ‘‘  ہے،  جسے شرعی اصطلاح میں ’’تعزیربالمال‘‘ اور ’’غرامہ مالیہ‘‘ بھی کہاجاتاہے، شرعاً مالی جرمانہ لینا جائز نہیں ہے۔ لہذا جو رقم اب تک لی گئی ہے وہ بھی واپس کرنا ضروری ہے، نیز ان پیسوں کو مدرسہ کے کسی کام میں لگانا جائز نہیں ہے۔  اگر مصلحت کے پیشِ نظر  اور اصلاح کی خاطر جرمانہ لیا گیا ہو تو اُسے سال کے آخر طلبہ کو   واپس کردیا جائے ۔بچوں کو قواعدواصول  اور نماز باجماعت کا پابندبنانے کے لیے  جرمانہ لینے کے بجائے ان کو کوئی اور مناسب تادیبی سزا دینی چاہیے۔

"ولایکون التعزیر بأخذ المال من الجاني في المذهب".  (مجمع الأنهر ، کتاب الحدود / باب التعزیر ۱؍۶۰۹ بیروت)

"وفي شرح الآثار: التعزیر بأخذ المال کانت في ابتداء الإسلام ثم نسخ". (البحر الرائق /باب التعزیر41/5 )

"والحاصل أن المذهب عدم التعزیر بأخذ المال".  (شامی / باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال،ج: ۴، ص: ۶۱)

"لایجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي".  (شامی / باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال،ج: ۴، ص: ۶۱)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201640

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں