بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طلبائے کرام سے غیر حاضری پر مالی جرمانہ لینے کا حکم


سوال

طلبہ کرام سے جرمانے یا قیمت طعام کے نام سے غیر حاضری کی بنا پر پیسے لینا جائز ہیں یا نہیں؟ازراہِ  کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں!

جواب

مالی جرمانہ (جسے تعزیر بالمال اور معاصر اصطلاح میں غرامہ مالیہ کہا جاتا ہے) شرعاً جائز نہیں، لہذا طلبائے کرام پر کسی اور  جرم کی بنا پر  زجراً وتنبیہاً کسی بھی صورت میں مالی جرمانہ عائد کرنا یا  وصولی کی صورت میں اسے خرچ کرنا یا استعمال میں لانا شرعاً جائز نہیں، لوٹانا واجب ہے۔

قال في الدر :

"(لَا بِأَخْذِ مَالٍ فِي الْمَذْهَبِ) بَحْرٌ. وَفِيهِ عَنْ الْبَزَّازِيَّةِ: وَقِيلَ يَجُوزُ، وَمَعْنَاهُ أَنْ يُمْسِكَهُ مُدَّةً لِيَنْزَجِرَ ثُمَّ يُعِيدَهُ لَهُ".

  وفي الرد:

"مَطْلَبٌ فِي التَّعْزِيرِ بِأَخْذِ الْمَالِ

(قَوْلُهُ: لَا بِأَخْذِ مَالٍ فِي الْمَذْهَبِ) قَالَ فِي الْفَتْحِ: وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ يَجُوزُ التَّعْزِيرُ لِلسُّلْطَانِ بِأَخْذِ الْمَالِ. وَعِنْدَهُمَا وَبَاقِي الْأَئِمَّةِ لَا يَجُوزُ. اهـ. وَمِثْلُهُ فِي الْمِعْرَاجِ، وَظَاهِرُهُ أَنَّ ذَلِكَ رِوَايَةٌ ضَعِيفَةٌ عَنْ أَبِي يُوسُفَ. قَالَ فِي الشُّرُنْبُلَالِيَّةِ: وَلَا يُفْتَى بِهَذَا لِمَا فِيهِ مِنْ تَسْلِيطِ الظَّلَمَةِ عَلَى أَخْذِ مَالِ النَّاسِ فَيَأْكُلُونَهُ اهـ وَمِثْلُهُ فِي شَرْحِ الْوَهْبَانِيَّةِ عَنْ ابْنِ وَهْبَانَ (قَوْلُهُ وَفِيهِ إلَخْ) أَيْ فِي الْبَحْرِ، حَيْثُ قَالَ: وَأَفَادَ فِي الْبَزَّازِيَّةِ أَنَّ مَعْنَى التَّعْزِيرِ بِأَخْذِ الْمَالِ عَلَى الْقَوْلِ بِهِ إمْسَاكُ شَيْءٍ مِنْ مَالِهِ عَنْهُ مُدَّةً لِيَنْزَجِرَ ثُمَّ يُعِيدُهُ الْحَاكِمُ إلَيْهِ، لَا أَنْ يَأْخُذَهُ الْحَاكِمُ لِنَفْسِهِ أَوْ لِبَيْتِ الْمَالِ كَمَا يَتَوَهَّمُهُ الظَّلَمَةُ إذْ لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَيْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ.
وَفِي الْمُجْتَبَى لَمْ يَذْكُرْ كَيْفِيَّةَ الْأَخْذِ وَأَرَى أَنْ يَأْخُذَهَا فَيُمْسِكَهَا، فَإِنْ أَيِسَ مِنْ تَوْبَتِهِ يَصْرِفُهَا إلَى مَا يَرَى. وَفِي شَرْحِ الْآثَارِ: التَّعْزِيرُ بِالْمَالِ كَانَ فِي ابْتِدَاءِ الْإِسْلَامِ ثُمَّ نُسِخَ. اهـ. وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمَذْهَبَ عَدَمُ التَّعْزِيرِ بِأَخْذِ الْمَالِ" . [الدر مع الرد :٤/ ٦١-٦٢]
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200948

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں