میں نے قدوری میں ایک مسئلہ ایسا پڑھا کہ اگرکوئی شخص کہے کہ "میں جس عورت سے شادی کروں گا اسے طلاق " تو طلاق واقع ہو جاتی ہے . اس مسئلہ پڑھنے کے بعد میرا وسوسہ شروع ہو گیا کہ پڑھنے کی صورت میں مجھ سے تو یہ کلام زبانی ادا ہوگیا ، سو بعد النکاح میری زوجہ بھی مطلقہ ہو جائے گی ۔ پھر ایک دن میں نے کہا، اے اللہ، میں نے جو کچھ کہا ہے میں اس سے رجوع کرتا ہوں ، یاتو میں نے اس طرح کہا اے اللہ، جس کسی عورت سے نکاح کرو اسے طلاق یہ جو میں نے کہا اس سے رجوع کرتا ہوں . (میں نے حقیقت میں نہیں کہا تھا مسئلہ سیکھنے کی صورت میں جو کلام بولا ہے اس سے رجوع کرتا ہوں ) مذکورہ دونوں صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں بولا ہے ۔ پختہ یقین سے معلوم نہیں کس طرح بولاہے لکن پہلی صورت [ اے اللہ میں نے جو کچھ کہا ہے اس سے رجوع کرتا ہو ]کی طرف ذہن کچھ مائل ہے ۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ ا وپر میں نے لکھا ہے " اگر کوئی شخص کہے کہ میں جس کسی عورت سے نکاح کروں اسے طلاق“ ۔
میرا سوال یہ ہے کہ آپ کو سوال لکھنے کے لیے، سب سے پہلے، اس جگہ میں نے لکھا “ اگر میں جس عورت سے نکاح کروں اسے طلاق ۔ ” اگر کوئی شخص کہے“ اس کو بھول کر چھوڑ دیا ۔ پھر صحیح کرکے لکھا ۔ کیا ایسے لکھنے سے طلاق معلق ہو جائے گی ۔ براہ کرم فیصلہ کریں ?
کتاب سے مسئلہ پڑھنے کی صورت میں جو طلاق کے الفاظ بولے یا لکھے جاتے ہیں وہ بطورِ حکایت (کسی کی گفتگو نقل کرنا) کے ہوتے ہیں ، ان سے طلاق دینا مقصود نہیں ہوتا اور شرعاً کسی دوسرے کے طلاق کے الفاظ نقل کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔آپ شک میں مبتلا نہ ہوں۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ مشكول (9/ 183)
"لَوْ كَرَّرَ مَسَائِلَ الطَّلَاقِ بِحَضْرَةِ زَوْجَتِهِ، وَيَقُولُ: أَنْتِ طَالِقٌ وَلَا يَنْوِي لَا تَطْلُقُ ، وَفِي مُتَعَلِّمٍ يَكْتُبُ نَاقِلًا مِنْ كِتَابِ رَجُلٍ قَالَ: ثُمَّ يَقِفُ وَيَكْتُبُ : امْرَأَتِي طَالِقٌ، وَكُلَّمَا كَتَبَ قَرَنَ الْكِتَابَةَ بِاللَّفْظِ بِقَصْدِ الْحِكَايَةِ لَا يَقَعُ عَلَيْهِ".فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144001200306
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن