بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے لئے بیوی کی طرف نسبت کرنا ضروری ہے


سوال

میں نے Muslim Law کا مضمون رکھا ہوا ہے، اس امتحان میں طلاق کے مسائل کے سوال آتے ہیں، ساتھ مثال دینی ہوتی ہے، علماء سے سنا ہے کہ مثال دیتے ہوئے بھی احتیاط کرنی چاہیے، یعنی اگر تین طلاق کا سوال امتحان میں آتا ہے تو اس کی مثال ایسے دینا درست ہے کہ مثلاً علی نے اپنی بیوی کو کہا میں تمہیں تین طلاق دیتا ہوں، کیا  فقہ حنفی کے مطابق تین طلاق ہوجائیں گی؟ جب کہ فقہِ اہل حدیث کے مطابق نہیں ہوں گی۔ اسی طرح طلاقِ احسن اور طلاقِ بدعت کے سوال بھی آتے ہیں، اور معروضی سوالات میں درست جواب پر گول دائرہ لگانا ہوتا ہے، سوال حل کرنے کا آسان طریقہ بتائیں کہ کسی بھی قسم کا نقصان نہ ہو!

جواب

واضح رہے کہ بیوی کی غیر موجودگی میں طلاق واقع ہونےکے لیے یہ ضروری ہے کہ شوہر  طلاق  کی نسبت بیوی کی طرف کرے، مثلاً میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی، یا اپنی بیوی کا نام لے کر کہے کہ طلاق دی اور بیوی کی موجودگی میں بھی طلاق کی نسبت بیوی کی طرف کرنا ضروری ہے خواہ اشارۃً نسبت کرے۔  اور اگر بیوی کی طرف نسبت نہیں کی ہے نہ صراحۃً اور نہ اشارۃً  تو شرعاً طلاق واقع نہیں ہوتی۔

پس صورتِ مسئولہ میں طلاق کا مسئلہ سمجھاتے ہوئے اگر کوئی مثال دی جائے تو اس مثال کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہوگی، لہذا امتحانی پرچہ حل کرنے میں اگر مثال دینے کی نوبت آئے یا جواب منتخب کرنے میں کوئی  ایسا جواب ہو مثلاً:میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی یا تین طلاق دیں تو ایسے جواب کے انتخاب کی بنا پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔

آپ ان مسائل میں شک اور وہم کی طرف بالکل دھیان نہ دیجیے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200121

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں