بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسری بیوی اور اس کے گھروالوں کے سامنے پہلی بیوی کی طلاق کا اقرار


سوال

ایک شخص دوسری شادی کے لیے دوسری بیوی کے میکے والوں کو کہتاہے اور دوسروں کو بھی کہ میں نے پہلی بیوی کوطلاق دے دی، لیکن پہلی بیوی کو حلفاً  کہتا ہے کہ تمہیں طلاق نہیں دی۔  آیا اب کیا حکم ہے؟

جواب

اگر یہ شخص واقعۃً  یہ کہہ چکا ہے کہ میں نے پہلی بیوی کو طلاق دےدی ہے ، تو اس کی  پہلی بیوی پر طلاق پڑ چکی ہے، دورانِ عدت رجوع کا حق ہوگا، جب تک رجوع نہ کرے تب تک  پہلی بیوی کا اس کے ساتھ رہنا جائز نہیں، عدت کے بعد تجدیدِ نکاح کی اجازت ہوگی۔ بہر صورت آئندہ کے لیے دو طلاقوں کی ہی اختیار ہو گا۔ (جب کہ بار بار طلاق کے الفاظ دہرانے سے مقصود سابقہ طلاق کی خبر دینا ہو)

البتہ اگر شوہر نے واقعۃً اپنی پہلی بیوی کو طلاق نہیں دی تھی، اور کسی مصلحت سے گھر والوں اور دیگر لوگوں کے سامنے مذکورہ طلاق کا اقرار (کہ ”میں نے پہلی بیوی کوطلاق دے دی ہے“) کرنے سے پہلے  بیوی کے علاوہ دیگر دو گواہ بنالیے تھے کہ میں خلافِ حقیقت طلاق کا اقرار کروں گا، اور اس سے حقیقت میں بھی شوہر کا طلاق دینا مقصود نہیں تھا تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی، لیکن  اگر پہلے سے گواہ نہیں بنائے تھے، بلکہ گواہ بنائے بغیر طلاق کا جھوٹا اقرار کرلیا تو اس سے سے بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 238):

"(قوله: أو هازلاً) أي فيقع قضاءً وديانةً كما يذكره الشارح، وبه صرح في الخلاصة معللاً بأنه مكابر باللفظ فيستحق التغليظ، وكذا في البزازية. وأما ما في إكراه الخانية: لو أكره على أن يقر بالطلاق فأقر لايقع، كما لو أقر بالطلاق هازلاً أو كاذباً فقال في البحر: وإن مراده لعدم الوقوع في المشبه به عدمه ديانة، ثم نقل عن البزازية والقنية: لو أراد به الخبر عن الماضي كذباً لايقع ديانةً، وإن أشهد قبل ذلك لايقع قضاءً أيضاً. اهـ. ويمكن حمل ما في الخانية على ما إذا أشهد أنه يقر بالطلاق هازلاً، ثم لايخفى أن ما مر عن الخلاصة إنما هو فيما لو أنشأ الطلاق هازلاً. وما في الخانية فيما لو أقر به هازلاً فلا منافاة بينهما".

فتاوی شامی میں ہے:

’’ولو أقر بالطلاق كاذباً أو هازلاً وقع قضاءً لا ديانةً‘‘.  (3 / 236،  کتاب الطلاق، ط: سعید)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201148

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں