طلاقِ معلق میں لفظِ طلاق کہنے میں شک آجائے کہ یہ لفظ بولا ہے یا نہیں، یعنی الفاظِ تعلیقات بولے ہیں، لیکن لفظِ طلاق بولنے میں شک ہے ۔ ذہن کو زور دینے سے نہ بولنے کا پہلو کبھی کبھی راجح ہوجاتا ،ہے لیکن شک سے خالی نہیں ۔ یقیناً کسی پہلو کی ترجیح حاصل نہیں ، اس مسئلے کو حل کردیجیے۔
جب شک ہے اور کوئی جانب راجح بھی نہیں ہے تو طلاق واقع نہ ہوگی۔
’’فحلفه باطل أي فلا شيء علیه، قیل: أما الطلاق والعتاق؛ فإنهما لا یقعان بالشک‘‘. (غمز عیون البصائر علی الاشباه ۱:۱۹۸ القاعدة الثالثة)
’’ومنها: شک هل طلق أم لا؟ لم یقع. شک أنه طلق واحدةً أو أکثر؟ بنی علی الأقل، کما ذکر الإسبیجابي‘‘. (الاشباه والنظائر۶۴ قاعدة من شک هل فعل ام لا) الاشباه والنظائر في الفقه الحنفي۶۰ القاعدة الثالثة)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144001200439
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن