بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ضعیف حدیث کی حجیت


سوال

کیا یہ بات درست ہے کہ ضعیف حدیث پر عمل کے حوالہ سے تین اقسام کی رائے ہیں، کچھ اہلِ علم ضعیف حدیث کو کسی بھی صورت حجت (قابلِ عمل) تسلیم نہیں کرتے، کچھ اہلِ علم تمام ضعیف احادیث کو بغیر کسی شرط کے قابل حجت سمجھتے ہیں، جب کہ اہلِ علم کا تیسرا طبقہ کچھ شرائط کے ساتھ صرف فضائل میں ضعیف احادیث کو قابلِ حجت سمجھتا ہے؟ اگر یہ بات درست ہے تو تیسرے طبقہ میں احناف کے علاوہ اور کس مسلک کے اہلِ علم آتے ہیں؟

جواب

جی اس سلسلے میں اہلِ علم میں  مذکورہ   تین  آراء پائی جاتی ہیں ، تیسری رائے  جمھور محدثین وفقہاء کرام کی ہے، ان  کے نزدیک ضعیف حدیث کو فضا ئلِ اعمال ،ترغیب و ترہیب ،قصص اور مغازی وغیرہ میں دلیل بنایا جاسکتا ہے بشرطیکہ موضوع نہ ہو ، چنانچہ ابن مہدی ، امام احمد وغیرہم سے منقول ہے : 

النكت على مقدمة ابن الصلاح (2/ 308)
" أن الضعيف لا يحتج به في العقائد والأحكام، ويجوز روايته والعمل به في غير ذلك، كالقصص وفضائل الأعمال، والترغيب والترهيب، ونقل ذلك عن ابن مهدي وأحمد بن حنبل، وروى البيهقي في المدخل عن عبد الرحمن ابن مهدي أنه قال : " إذا روينا عن النبي صلى الله عليه و سلم في الحلال والحرام والأحكام شددنا في الأسانيد، وانتقدنا في الرجال، وإذا روينا في فضائل الأعمال والثواب والعقاب سهلنا في الأسانيد، وتسامحنا في الرجال۔ " 
 فتح المغيث (1/ 289)
"قد حكى النووي في عدة من تصانيفه إجماع أهل الحديث وغيرهم على العمل به في الفضائل ونحوها خاصةً، فهذه ثلاثة مذاهب"۔ 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202209

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں