بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صوبائی حکومت کی جانب سےدی جانے والی امداد لینے کا حکم


سوال

ہماری صوبائی حکومت ائمہ مساجد کو اعزازیہ کے طور پر دس ہزار روپے ماہانہ دینا چاہتی ہے جب کہ یہاں مذہبی رہنماؤں کے مطابق یہ پیسے نہیں لینا چاہیے، وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ان پیسوں کی اسمبلی سے کوئی قرار داد منظور نہیں ہوئی ہے، اور محکمہ خزانہ نے کوئی سرکاری فرمان جاری نہیں کیا ہے، اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ائمہ مساجد کی کوئی حیثیت ظاہر نہیں کی گئی ہے، یعنی نہ وہ سرکاری ملازم تصور کیے گیے ہیں، اور نہ ان کو سکیل دیا گیا ہے، اس لیے یہ نہ وظیفہ کے زمرے میں آتا ہے اور نہ اس  کو تنخواہ کہا جا سکتا ہے۔ وظیفہ مستحق اور نادار لوگوں کا حق ہے، جب کہ ائمہ مساجد میں اس کی کوئی تمیز نہیں کی گئی ہے کہ یہ مستحق ہیں یا نہیں؟ اور تنخواہ سرکاری ملازم کو دی جاتی ہے جب کہ یہ سرکاری ملازم تصور نہیں ہوتے، ان کے یہ سارے اعتراضات بالکل درست ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کوئی امام یہ اعزازیہ لے سکتا ہے یا نہیں وجہ بھی بتائیں؟

جواب

مذکورہ رقم کی شرعی حیثیت کے تعین کا مدار اس بات پر ہے کہ یہ رقم سرکاری خزانے سے دی گئی ہے، یا کسی پرائیوٹ ادارے یا کسی ملکی وغیر ملکی این جی اوز کے فنڈ سے دی گئی ہے؟ اس تفصیل کی روشنی میں وضاحت کے بعد حتمی جواب دیا جاسکتاہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143906200017

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں