بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صلوۃ التسبیح،


سوال

میں عقائد اور نظریات کے اعتبار سے راسخ العقیدہ دیوبندی ہوں، اور الحمدللہ علماءِ دیوبند کی تحقیق کو دل و جان سے قبول کرتا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ میں گوگل پر نمازِ تسبیح کا طریقہ جاننے کی غرض سے سرچنگ کر رہا تھا تو غیر مقلدین کی کچھ ویب سائٹس میرے سامنے سے گزریں، انہوں نے اپنی تحقیق کے مطابق نمازِ تسبیح کو موضوع قرار دیا ہے، جس کی وجہ سے مجھے کافی پریشانی لاحق ہوئی؛ لہذا میں نمازِ تسبیح کی شرعی حیثیت بارے اپنے علماء کرام کی تحقیق ملاحظہ کرنا چاہتا ہوں۔ براہِ کرم آپ میری راہ نمائی فرمائیے!

جواب

"صلاۃ التسبیح "  رسول اللہﷺ نے اپنے چچاحضرت عباس رضی اللہ عنہ کوبطورِتحفہ وعطیہ کےسکھائی تھی،اس کی فضیلت یہ ارشادفرمائی ہے کہ اس کے پڑھنے سے سارے گناہ (چھوٹے بڑے)  معاف ہوجاتےہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے میرے چچا عباس! کیا میں آپ کو ایک تحفہ، ایک انعام اور ایک بھلائی یعنی ایسی دس خصلتیں نہ بتاؤں کہ اگر آپ ان پر عمل کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کے سارے گناہ پہلے اور بعد کے، نئے اور پرانے، دانستہ اور نادانستہ، چھوٹے اور بڑے، پوشیدہ اور ظاہر سب معاف فرمادے۔ وہ دس خصلتیں (باتیں) یہ ہیں کہ آپ چار رکعت نماز ادا کریں، ہر رکعت میں سورت فاتحہ اور ایک سورت  پڑھیں۔ جب آپ پہلی رکعت میں قراء ت سے فارغ ہوجائیں تو قیام ہی کی حالت میں پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھیں (سُبْحَانَ الله وَالْحَمْدُ لله وَلاإِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَکْبَر) پھر رکوع کریں، (سُبْحَانَ رَبّيَ الْعَظِیم کہنے کے بعد) رکوع ہی میں دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھیں۔ پھر رکوع سے سر اٹھائیں اور (قومہ کے کلمات ادا کرنے کے بعد پھر) دس مرتبہ تسبیح پڑھیں۔ اس کے بعد سجدہ کریں ( سجدہ میں سُبْحَانَ رَبّيَ الْأَعْلٰی کہنے کے بعد) دس مرتبہ پھر یہی تسبیح پڑھیں۔ پھر سجدہ سے اٹھ کر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھیں۔ دوسرے سجدہ میں جاکر (سُبْحَانَ رَبّيَ الْأَعْلٰی کہنے کے بعد) دس مرتبہ تسبیح پڑھیں۔ پھر سجدہ سے سر اٹھائیں اور دس مرتبہ تسبیح پڑھیں۔ اس طرح ایک رکعت میں تسبیحات کی کل تعداد پچھتر  (۷۵) ہوگئی۔ چاروں رکعتوں میں آپ یہی عمل دہرائیں۔
اے میرے چچا ! اگر آپ ہر روز ایک مرتبہ صلاۃ التسبیح پڑھ سکتے ہیں تو پڑھ لیں۔ اگر روزانہ نہ پڑھ سکیں تو ہر جمعہ کو ایک بار پڑھ لیں۔ اگر ہفتہ میں بھی نہ پڑھ سکیں تو پھر ہر مہینہ میں ایک مرتبہ پڑھ لیں۔ اگر مہینے میں بھی نہ پڑھ سکیں تو ہر سال میں ایک مرتبہ پڑھ لیں۔ اگر سال میں بھی ایک بار نہ پڑھ سکیں تو ساری زندگی میں ایک بار پڑھ لیں۔
(سنن ابوداود ج۱ ص ۱۹۰ باب صلاۃ التسبیح۔ جامع الترمذی ج۱ ص ۱۰۹ باب ما جاء فی صلاۃ التسبیح۔ سنن ابن ماجہ ج۱ ص ۹۹باب ماجاء فی صلاۃ التسبیح۔ الترغیب والترھیب للمنذری ج۱ ص، 268،269 الترغیب فی صلوٰۃ التسبیح)

سلفِ صالحین کا صلاۃ التسبیح کا اہتمام:

(1)…… مشہور ومعروف محدث امام بیہقی  رحمہ اللہ (۳۸۴ھ۔۴۵۸ھ)نے حدیث کی مشہور کتاب (شعب الایمان ۱ /۲۴۷) میں تحریر کیا ہے کہ امام حدیث شیخ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ (۱۱۸ھ ۔۱۸۱ھ) صلاۃ التسبیح پڑھا کرتے تھے، اور دیگر سلف صالحین بھی اہتمام کرتے تھے۔

(2)……حضرت عبد العزیز بن ابی روّاد﷫جو حضرت عبد اللہ بن مُبارک﷫جیسے عظیم محدّث کے بھی استاذ ہیں،وہ فرماتے ہیں :جس کا جنت میں جانے کا ارادہ ہو اُس کے لیے ضروری ہے کہ صلاۃ التسبیح کو مضبوطی سے پکڑے۔
(3)……حضرت ابو عثمان حیری ﷫ جوکہ ایک بڑے زاہد ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے مصیبتوں اور غموں کے ازالے کے لیے صلاۃ التسبیح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی ۔
(4)……علّامہ تقی الدین سبکی ﷫فرماتے ہیں:جوشخص اِس نمازکی فضیلت و اہمیت کو سُن کر بھی غفلت اختیار کرے وہ دین کے بارے میں سستی کرنے والا ہے ، صلحاء کے کاموں سے دور ہے، اس کو پکا(دین میں چست) آدمی نہ سمجھنا چاہیے۔(فضائلِ ذکر ، شیخ الحدیث مولانا زکریا)

صلاۃ التسبیح کا ثبوت:

1۔ "صلاۃ التسبیح"  کی احادیث کو موضوع کہنا غلط ہے۔ ان احادیث کی مختلف اسناد  ہیں،  جن میں بعض پر محدثین نے کلام کیا ہے، اور بعض کو ضعیف کہا ہے، کئی محدثین نے حدیثِ عباس کو صحیح قرار دیا ہے، (تفصیل اگلی سطور میں آرہی ہے)، صلاۃ التسبیح سے متعلق روایات پر محدثین کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ اس روایت کا مرتبہ کم از کم "حسن" ہے۔  جب کہ یہ ضابطہ مشہور ومعروف ہے کہ  فضائل اعمال میں ضعیف احادیث مشروط طور پر قبول ہوتی ہیں، اور صلاۃ التسبیح سے متعلق روایات تو "حسن" کا درجہ رکھتی ہیں ؛ لہٰذا اس کی فضیلت ثابت ہے۔

2۔ یہ ضابطہ بھی معروف ومشہور ہے کہ جس حدیث کو امت کے معتبر ومستند اہلِ علم قبول کرلیں، (خصوصاً وہ محدثین جو خود روایات پر جرح وتعدیل کے اعتبار سے بحث بھی کرتے ہیں، جب وہ کسی روایت کو  عملاً قبول کرلیں) تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ روایت پر کلام صرف سند کے اعتبار سے ہے، جہاں تک متنِ حدیث کا تعلق ہے تو وہ محدثین کے ہاں بھی ثابت ہوتاہے۔ لہٰذا اگر بالفرض صلاۃ التسبیح کے ثبوت میں کوئی حسن روایت نہ بھی ہوتی تو  صلاۃ التسبیح سے متعلق ضعیف روایات پر محدثین کا عمل اور اس کی پابندی واہتمام (جیساکہ چند حوالے گزرے ہیں) بجائے خود صلاۃ التسبیح کے ثبوت کی دلیل ہے۔ چناں چہ امام حاکم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے صحیح ہونے پر یہ دلیل ہے کہ تبع تابعین کے زمانہ سے ہمارے زمانہ تک مقتدا حضرات اس پر مداومت کرتے اور لوگوں کو تعلیم دیتے رہے ہیں، جن میں عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالیٰ بھی ہیں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث کے بارے میں محدثین کا کلام  درج ذیل ہے:

1۔ ابوحامد احمد بن محمد بن الحسن الشرقی الحافظ کہتے ہیں کہ میں نے امام مسلم  رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : "لا یروی في هذا الحدیث إسناد أحسن من هذا". (الإرشاد في معرفة علماء الحدیث للخلیلي : ١/٣٢٦، )
"اس حدیث کی اس سے بڑھ کر بہتر سند کوئی نہیں بیان کی گئی ۔"
2. ابنِ شاہین رحمہ اللہ (٢٩٧۔٣٨٥ھ)فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابوداؤد سے سنا:
"أصحّ حدیث في التسبیح حدیث العبّاس". (الثقات لابن شاہین : ١٣٥٦)

" نماز ِ تسبیح کے بارے میں سب سے صحیح حدیث ، سیدنا عباس کی حدیث ہے ۔"
3. حافظ منذری رحمہ اللہ (٥٨١۔٦٥٦ھ)لکھتے ہیں :

"صحّح حدیث عکرمة عن ابن عبّاس هذا جماعة ، منهم : الحافظ أبوبکر الآجری ، وشیخنا أبو محمّد عبد الرحیم المصریّ ، وشیخنا الحافظ أبو الحسن المقدسیّ".(الترغیب والترھیب للمنذری : ١/٤٦٨)
”اس حدیث کو ائمہ کرام کی ایک جماعت نے صحیح قرار دیا ہے ، ان میں سے حافظ ابوبکرالآجری ہیں اورہمارے شیخ ابو محمدعبدالرحیم المصری ہیں اورہمارے شیخ حافظ ابوالحسن المقدسی ہیں ۔"
4. حافظ علائی رحمہ اللہ (٦٩٤۔٧٦١ھ)لکھتے ہیں :

"حدیث حسن صحیح ، رواه أبوداؤد وابن ماجه بسند جیّد إلی ابن عبّاس". (النقد الصحیح : ص ٣٠)
"یہ حدیث حسن صحیح ہے ، اس کو امام ابوداؤد اورامام ابنِ ماجہ نے ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔"
5. حافظ ابن الملقن  رحمہ اللہ (٧٢٣۔٨٠٤ھ)فرماتے ہیں :

"وهذا الإسناد جیّد".(البدر المنیر لابن الملقن : ٤/٢٣٥)
"یہ سند جید ہے ۔"
6. حافظ سیوطی  رحمہ اللہ (م ٩١١ھ)فرماتے ہیں :

"وهذا إسناد حسنٌ".(اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ : ٢/٣٥)
"یہ سند حسن ہے۔" 

7.  امام ابو عبد اللہ الحافظ النیسابوری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب 'المستدرک علی الصحیحین' میں صلاۃ التسبیح والی حدیث کو ذکر کر کے اس کو صحیح قرار دیا ہے، نیز حاکم رحمہ اللہ نے امت کے تلقی بالقبول سے بھی اس روایت کی صحت پر استدلال کیاہے۔اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اس پر نہ صرف یہ کہ سکوت کیا ہے، بلکہ اس حدیث کے دیگر شواہد بھی پیش کیے ہیں، یہ بات اہلِ علم جانتے ہیں کہ ' مستدرکِ حاکم' کی روایت پر علامہ ذہبی کا سکوت روایت کی صحت ورنہ کم از کم "حسن" ہونے کی دلیل ہے، جب کہ اس روایت کے شواہد بھی علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ذکر فرمائے ہیں۔

المستدرك على الصحيحين للحاكم (1/ 464)

"حدثناه أبو علي الحسين بن علي الحافظ إملاء من أصل كتابه، ثنا أحمد بن داود بن عبد الغفار بمصر، ثنا إسحاق بن كامل، ثنا إدريس بن يحيى، عن حيوة بن شريح، عن يزيد بن أبي حبيب، عن نافع، عن ابن عمر، قال: وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم جعفر بن أبي طالب إلى بلاد الحبشة، فلما قدم اعتنقه وقبل بين عينيه، ثم قال: «ألا أهب لك، ألا أبشرك، ألا أمنحك، ألا أتحفك؟» قال: نعم، يا رسول الله. قال: " تصلي أربع ركعات تقرأ في كل ركعة بالحمد وسورة، ثم تقول بعد القراءة وأنت قائم قبل الركوع: سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله خمس عشرة مرةً، ثم تركع فتقولهن عشراً تمام هذه الركعة قبل أن تبتدئ بالركعة الثانية، تفعل في الثلاث ركعات كما وصفت لك حتى تتم أربع ركعات۔ «هذا إسناد صحيح لاغبار عليه، ومما يستدل به على صحة هذا الحديث استعمال الأئمة من أتباع التابعين إلى عصرنا هذا إياه ومواظبتهم عليه وتعليمهن الناس، منهم عبد الله بن المبارك رحمة الله عليه»".

قال الذهبي: "أخرجه أبو داود والنسائي، وابن خزيمة في الصحيح ثلاثتهم عن عبد الرحمن بن بشر".(المستدرک مع التلخیص، ج:۱ ص:۳۱۹، ط:دار المعرفة، بیروت ) 

وفي مرقاة المفاتیح(۳۷۷/۳):

" وینبغي للمتعبد أن یعمل بحدیث ابن عباس تارةً، ویعمل بحدیث ابن مبارک أخری". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200781

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں