بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صف میں جگہ روکنا


سوال

کسی نمازی کا صف میں رومال وغیرہ رکھ کر اپنےلیے  کوئی جگہ متعین کر لینا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟

جواب

جو شخص مسجد میں پہلے آجائے وہ خالی جگہ کا مستحق ہے، پس اگر کوئی شخص پہلے آکر جگہ پر بیٹھ جائے، پھر کسی ضرورت سے اٹھنا پڑے، مثلاً  وضو کے لیے جانا پڑ جائے تو اس کا جگہ روکنا تو صحیح ہے، لیکن اگر جگہ روک کر گھر چلا جائے یا بازار میں پھرتا رہے تو اس کا جگہ روکنا جائز نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 662):
"(قوله: وتخصيص مكان لنفسه) لأنه يخل بالخشوع، كذا في القنية: أي لأنه إذا اعتاده ثم صلى في غيره يبقى باله مشغولاً بالأول، بخلاف ما إذا لم يألف مكاناً معيناً (قوله: وليس له إلخ) قال في القنية: له في المسجد موضع معين يواظب عليه وقد شغله غيره. قال الأوزاعي: له أن يزعجه، وليس له ذلك عندنا اهـ أي لأن المسجد ليس ملكا لأحد بحر عن النهاية۔
قلت: وينبغي تقييده بما إذا لم يقم عنه على نية العود بلا مهلة، كما لو قام للوضوء مثلا ولا سيما إذا وضع فيه ثوبه لتحقق سبق يده۔  
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200468

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں