بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقۃ فطر کا وجوب صاحبِ نصاب پر ہے


سوال

اس امر کی کیا دلیل ہے کہ صدقہ فطر صاحبِ نصاب ہی ادا کرے گا ?بعض لوگ ایک روایت پیش کرتے ہیں "غنی ہو یا فقیر صدقہ فطر ادا کرے گا".

جواب

صدقات کا مقصودِ اصلی فقیروں کی حاجت روائی ہے؛ اس لیے واجب صدقا ت شریعت نے مال داروں ہی کے ذمہ رکھے ہیں؛ تاکہ فقیروں کی حاجت روائی ہو سکے، اگر فقیر پر بھی لازم ہوں تو  اس کا مقصد فوت ہو جا ئے گا ۔ چناں چہ حدیث شریف میں ہے "مسند أحمد بن حنبل" (2/ 230)کی  روایت ہے  جس کو امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے بھی تعلیقاً ذکر کیا ہے:

" عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "لا صدقة إلا عن ظهر غني".

یعنی صدقہ صرف مال دار پر ہی واجب ہوتا ہے۔

باقی جس روایت کا آپ نے تذکرہ کیا ہے، اس کو محدثین نے کئی جہات سے ضعیف قرار دیا ہے، چناں چہ محدث وفقیہ محقق علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ "ہدایہ"  کی مایہ ناز شرح"فتح القدير" (4/ 230)میں اس روایت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''وما روى أحمد حدثنا عفان قال : سألت حماد بن زيد عن صدقة الفطر ، فحدثني عن نعمان بن راشد عن الزهري عن أبي ثعلبة بن أبي صعير عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : «أدّوا صاعاً من قمح أو صاعاً من برّ -شك حماد- عن كل اثنين: صغير أو كبير، ذكر أو أنثى، حر أو مملوك، غني أو فقير، وأما غنيكم فيزكيه الله ، وأما فقيركم فيردّ الله عليه أكثر مما يعطي». فقد ضعّفه أحمد بالنعمان بن راشد، وجهالة ابن أبي صعير، ولو صح لا يقاوم ما رويناه في الصحة، مع أن ما لا ينضبط كثرة من الروايات المشتملة على التقسيم المذكور ليس فيها الفقير، فكانت تلك رواية شاذةً، فلاتقبل خصوصاً مع نبو عن قواعد الصدقات والحديث الصحيح عنها''۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200761

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں