بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقہ فطر کی ادائیگی میں کس جگہ کی قیمت معتبر ہے؟


سوال

 کوئی شخص باہرملک میں ہے اور اس کے گھر والے اس کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا چاہتے ہیں تو کون سی کرنسی سے ادا کریں گے؟ جس ملک میں وہ شخص رہ رہا ہے یا جس میں اس کے گھر والے رہ رہے ہیں؟

جواب

 صدقہ فطر کی ادائیگی میں کرنسی کی قید نہیں ، چاہے باہرممالک کی کرنسی ہو یاپاکستانی روپے دونوں صورتوں میں صدقہ فطر کی ادائیگی درست ہے، البتہ گندم ، کھجوروغیرہ کی قیمت کون سی معتبر ہوگی؟باہرممالک کی جہاں وہ شخص رہتاہے یاجہاں صدقہ فطر ادا کیاجارہاہووہاں کی قیمت؟اس کا جواب یہ ہے کہ  بیرون ملک کی قیمت کے حساب سے مذکورہ چیزوں میں سے کسی ایک کی قیمت لگاکر صدقہ فطرادا کیا جائے،اور اگر یہاں پاکستان میں ان چیزوں کی قیمت باہرملک کی بہ نسبت زیادہ ہے تو یہاں کے حساب سے اداکردیں ۔

البحرالرائق میں ہے:

’’ وفي صدقة الفطر مكان الرأس المخرج عنه في الصحيح مراعاة لإيجاب الحكم في محل وجود سببه كذا في فتح القدير وصحح في المحيط أنه في صدقة الفطر يؤدي حيث هو ، ولا يعتبر مكان الرأس من العبد والولد ؛ لأن الواجب في ذمة المولى حتى لو هلك العبد لم يسقط عنه فاختلف التصحيح كما ترى فوجب الفحص عن ظاهر الرواية والرجوع إليها ، والمنقول في النهاية معزيا إلى المبسوط أن العبرة لمكان من تجب عليه لا بمكان المخرج عنه موافقا لتصحيح المحيط فكان هو المذهب ؛ ولهذا اختاره قاضي خان في فتاويه مقتصرا عليه ، وحكى الخلاف في البدائع فعن محمد يؤدي عن عبيده حيث هو ، وهو الأصح ‘‘۔(6/98)

المحیط البرھانی میں ہے:

’’ لو أعطى صدقة الفطر عن زوجته وأولاده الكبار الذين هم في عياله أجزأه وإن لم يأمروه بذلك، ولا يجوز أن يعطي عن غير عياله إلا بأمره، ويؤدي صدقة الفطر عن نفسه وعبيده حيث هو ‘‘۔(2/684)

بدائع الصنائع میں ہے:

’’ ( فصل ) : وأما مكان الأداء وهو الموضع الذي يستحب فيه إخراج الفطرة روي عن محمد أنه يؤدي زكاة المال حيث المال ويؤدي صدقة الفطر عن نفسه وعبيده حيث هو وهو قول أبي يوسف الأول ثم رجع وقال يؤدي صدقة الفطر عن نفسه حيث هو وعن عبيده حيث هم حكى الحاكم رجوعه وذكر القاضي في شرحه مختصر الطحاوي قول أبي حنيفة مع قول أبي يوسف ‘‘۔(4/136)فقط واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 143809200029

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں