بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صحیح بخاری اور مسلم میں سے کس حدیث کو ترجیح دی جائے؟


سوال

کسی بھی حکم میں اگر دو احادیث دو الگ کتابوں سے ملیں جیسے کہ بخاری میں رفعِ یدین کی احادیث ملتی ہیں اور مسلم میں رفع یدین چھوڑنے کی حدیث ملتی ہے تو کیا یہ کہہ کر کسی حدیث کو چھوڑدیا جائے کہ بخاری افضل ہے مسلم اس سے کم افضل ہے، تو بخاری شریف کی حدیث مانی جائےگی اور مسلم کی نہیں مانی جائے گی؟

اور اسی طرح ایک صاحب کہنے لگے کہ سب نئے کام بدعت ہیں جیسے بخاری میں حدیث موجود ہے اور مسلم میں ایک اور حدیث موجود ہے جس میں دو طرح کے نئے کام بتائے گئے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ  صحیح  احادیث صرف وہی نہیں ہیں جو امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ذکر کی ہیں، بلکہ امام بخاری اور امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی شرائط کے مطابق صحیح احادیث میں سے انتخاب کرکے اپنی کتابوں میں ان کو ذکر کیا ہے،  صحیح بخاری میں سات ہزار  اور کچھ احادیث ہیں جس کے بارے میں  خود  امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کو  چھ لاکھ احادیث میں سے انتخاب کرکے لیا ہے،  ابراہیم بن معقل رحمہ اللہ ان سے روایت کرتے ہیں  امام بخاری  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب "صحیح بخاری" میں صرف وہی احادیث ذکر کی ہیں جو صحیح ہوں اور بہت سی  صحیح  احادیث کو طوالت کی وجہ سے ذکر نہیں کیا ہے،   نیز خود امام بخاری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ جو صحیح احادیث میں نے ذکر نہیں کیں وہ ان سے زیادہ ہیں جن کو میں نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے، اسی طرح امام مسلم رحمہ اللہ نے تیس لاکھ احادیث میں سے انتخاب کرکے  چار ہزار کے لگ بھگ احادیث اپنی "صحیح مسلم " میں ذکر کی ہیں، لہذا صحیح حدیث کا مدار یہ نہیں ہے کہ وہ صحیح  بخاری یا  صحیح مسلم میں موجود ہو، ہاں ان دونوں اماموں نے اپنی سخت شرائط کے ساتھ  اپنے اصول اور اپنے مزاج کے مطابق صحیح احادیث میں سے منتخب کرکے  ان میں سے مذکورہ مقدار کا انتخاب کیا ہے۔

دوسری بات یہ بھی ذہن نشین رہنی چاہیے  کہ احادیث کی صرف دو ہی قسمیں صحیح اورضعیف نہیں؛ بلکہ اس کی متعدد اقسام ،مثلاً: صحیح ،صحیح لغیرہ ؛حسن ،حسن لغیرہ ، ضعیف، موضوع وغیرہ وغیرہ ، پھر ضعیف کی بھی مختلف اقسام ہیں۔ اور عمل اور استدلال کے اعتبار سے بھی ان میں فرق مراتب  ہوتا  ہے، مثلاً حدیث صحیح کی پانچ شرطیں ہیں: ۱:․․․سند کا اتصال۲:․․․راویوں کی عدالت۳:․․․ضبط ۴:․․․شذوذ ۵:․․․علت قادحہ سے محفوظ ہونا۔
حدیثِ حسن بھی انہیں صفات کی حامل ہوتی ہے، البتہ اس کے کسی راوی میں ضبط کے اعتبار سے معمولی کمی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی حدیث نہ تو صحیح کہی جاسکتی ہے اور نہ ہی ضعیف میں شمار ہوتی ہے، بلکہ وہ حدیث "حسن" شمار ہوتی ہے۔ اور حسن کی ایک قسم وہ ضعیف ہے جو تعدد طرق کی وجہ سے قوت پاکر حسن بن جاتی ہے اس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں اور جو حدیث اس سے بھی کم درجہ کی  ہو وہ ضعیف کہلاتی ہے، جس کے مراتب مختلف ہوتے ہیں، سب سے کم  موضوع ہے جو  من گھڑت  ہوتی ہیں۔
صحیح اور حسن کے تو قابل استدلال ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ چنانچہ جمیعِ ابوابِ دین میں ان سے استدلال کیا جاتا ہے، البتہ ضعیف کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور محدثین کا خیال ہے کہ احکام یعنی حلال وحرام کے باب میں تو ضعیف کو حجت نہیں بنایا جاسکتا ہے، البتہ فضائلِ اعمال میں،ترغیب وترہیب، قصص، مغازی وغیرہ میں  چند شرائط کے ساتھ اس کو دلیل بنایا جاسکتا ہے۔ البتہ اگر ضعیف حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہو، یا اس کی متابع روایات موجود ہوں تو اس سے بھی استدلال کیا جاتاہے۔ 

امام بخاری اور امام مسلم نے چوں کہ التزام کررکھا ہے کہ وہ اپنی کتاب میں صرف انہی راوایات کو جگہ دیں گے ؛ جوان قسموں میں سے اول درجے کی ہوں گی۔ بقیہ قسمیں بخاری اورمسلم میں جگہ نہیں پاسکیں۔  جب کہ بعض مسائل میں ان حضرات نے اپنے مقرر کردہ معیار کے مطابق اول درجے کی روایات ہونے کے باوجود بھی چھوڑ دی ہیں، مثلاً: امام مسلم رحمہ اللہ نے قراءت خلف الامام کی ممانعت والی روایت ذکر نہیں کی، باوجود یہ کہ "امام مسلم رحمہ اللہ نے خود فرمایا کہ یہ روایت میرے نزدیک صحیح ہے، لیکن وہ ہر حدیث جو میرے نزدیک صحیح ہو میں نے اسے "صحیح مسلم" میں شامل نہیں کیا۔

خلاصہ یہ کہ صحیحین کی روایات صحیح ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ جو حدیثیں شیخین نے چھوڑ دیں وہ منکرہیں، بلکہ  محدثین کو جو روایات پہنچیں؛ان کو انہوں نے جانچا ،ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جتنے لوگ اس روایت کو نقل کرنے میں واسطہ بنتے ؛ ان کے احوال زندگی،ان کے قوت حفظ ،مہارت ،ضبط اور عدالت وغیرہ کو جانچنے کے بعد اس حدیث پر صحیح ،حسن ،صحیح لغیرہ یا حسن لغیرہ اورضعیف وغیرہ کا حکم لگادیا ۔اگر روایت سب سے اعلی درجہ کی ہوتی ہے ؛تو اس کو صحیح کہہ دیتے، اگر کہیں کوئی کمی کوتاہی نظر آتی تو اس کو حسن وغیرہ کہہ دیتے،بعض مرتبہ تمام شرائط پائی جاتیں؛مگر اس کو محض اپنے خاص ذوق(علۃ خفیہ)کی وجہ سے چھوڑ دیتے۔ہاں! اگر اس روایت کے بارے میں معلوم ہوجاتاکہ وہ جھوٹی ہے تو اس کو منکراور موضوع قرار دیتے اوراسے اپنی کتابوں میں نقل ہی نہ کرتے ۔ موضوعا ت کی کتابیں الگ سے لکھی گئی ہیں؛تاکہ کسی موضوع روایت کے بارے میں تحقیق کرنی ہوتو اس کتاب میں اس کی تفصیل مل جائے گی۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں صحت سند کے اعتبار سے ترجیح جمہور کے نزدیک صحیح بخاری کو ہے، لیکن اگر کوئی حدیث بالفرض ایسی ہو   جس میں دونوں میں بظاہر تعارض ہو تو صرف بخاری کی حدیث کو اس وجہ سے ترجیح نہیں دی جائے گی کہ وہ صحیح بخاری میں موجود ہے، بلکہ فقہاء اور محدثین نے احادیث میں تعارض کی صورت میں تطبیق کے لیے مختلف ضوابط بنائے ہیں، مثلاً دو متعارض حدیثوں میں پہلے نسخ کا طریقہ جاری کریں گے اگر اس کی تاریخ معلوم ہو، اگر دلائل کے لحاظ سے نسخ کی صورت نہ بن سکے تو پھر ترجیح کا عمل جاری کریں گے، راجح پر عمل ہوگا، مرجوح متروک ہوں گی، اگر ترجیح بھی نہ ہو سکے تو پھر تطبیق اور توفیق کی شکل اختیار کی جائے گی؛ تاکہ دونوں حدیثوں پر عمل ہوسکے،ا گر قواعد کے لحاظ سے تطبیق بھی نہ ہوسکے تو پھر تساقط ہوگا۔ 

"فحاصل المذهب الراجح عند الحنفية: هو أنه إذا تعارض حديثان يحمل أولاً علی النسخ إن علم التاريخ نصاً، ثم علی الترجيح إذا ثبت كون أحدهما راجحاً علی الآخر، ولايجمع بينهما ما أمكن ، ثم علی النسخ الاجتهادي، ثم التساقط إلی ما بعده من الدليل". (دراسات في أصول الحديث علی منهج الحنفية، عبد المجيد التركماني ص 516)
ثمرات النظر في علم الأثر (ص: 137):
"َأما قَول البُخَارِيّ: لم أخرج فِي هَذَا الْكتاب إِلَّا صَحِيحاً وَمَا تركت من الصَّحِيح أَكثر، وَقَوله: مَا أدخلت فِي كتابي الْجَامِع إِلَّا مَا صَحَّ، فَهُوَ كَلَام صَحِيح إِخْبَار عَن نَفسه أَنه تحری الصَّحِيح فِي نظره".

الإمام البخاري وكتابه الجامع الصحيح (ص: 39):
"تصريحه بذلك في نصوص كثيرة نقلت عنه تقدم ذكر بعضها في السبب الباعث له على تأليفه وفي التنويه بمدى عنايته في تأليفه ومن ذلك غير ما تقدم ما نقله الإسماعيلي عنه أنه قال: "لم أخرج هذا الكتاب إلا صحيحاً وما تركت من الصحيح أكثر". وروى إبراهيم بن معقل عنه أنه قال: "ما أدخلت في كتابي الجامع إلا ما صح وتركت من الصحيح حتى لايطول…"

الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي (2/ 185):
"حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرْبَنْدِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْفَضْلِ الْمُفَسِّرَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ الرَّيْحَانِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ رَسَايَنَ الْبُخَارِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيَّ، يَقُولُ: «صَنَّفْتُ كِتَابِي» الصِّحَاحُ «بِسِتَّ عَشْرَةَ سَنَةً خَرَّجْتُهُ مِنْ سِتِّمِائَةِ أَلْفِ حَدِيثٍ وَجَعَلْتُهُ حُجَّةً فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»".

النكت على مقدمة ابن الصلاح (2/ 308):
" أن الضعيف لايحتج به في العقائد والأحكام، ويجوز روايته والعمل به في غير ذلك، كالقصص وفضائل الأعمال، والترغيب والترهيب، ونقل ذلك عن ابن مهدي وأحمد بن حنبل، وروى البيهقي في المدخل عن عبد الرحمن ابن مهدي أنه قال : " إذا روينا عن النبي صلى الله عليه و سلم في الحلال والحرام والأحكام شددنا في الأسانيد، وانتقدنا في الرجال، وإذا روينا في فضائل الأعمال والثواب والعقاب سهلنا في الأسانيد، وتسامحنا في الرجال. " 
 فتح المغيث (1/ 289):
"قد حكى النووي في عدة من تصانيفه إجماع أهل الحديث وغيرهم على العمل به في الفضائل ونحوها خاصةً، فهذه ثلاثة مذاهب".

2۔  بدعت ایک شرعی اصطلاح ہے، اس کے تحت جو نئے کام داخل ہوں وہ "بدعت"  کہلاتے ہیں، ہر نیا کام بدعت نہیں ہے، اس میں قدرے تفصیل ہے، اورتفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔ یہ تو اس جز کا اصولی اور اجمالی جواب ہے، باقی جو سوال مقصود ہے وضاحت سے لکھ کر سوال ارسال کردیجیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں