بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شہر میں متعدد مقامات پر جمعہ ادا کرنا


سوال

 ہمارے علاقے میں چھوٹی بڑی متعدد مساجد قریب قریب ہیں، اکثر مساجد محض سو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں, ایک مسجد جو اتنی چھوٹی ہے کہ اس میں کسی صورت میں پچاس سے زائد نمازی نہیں آ سکتے اور بعض اوقات صرف امام ہی ہوتا ہے نمازی کوئی نہیں ہوتا۔ تو ایسی مسجد میں جمعہ کی نماز شروع کرنا کیسا ہے جب کہ ارد گرد کی مساجد میں جمعہ ہوتا ہے اور بڑی مساجد میں نصف جگہ خالی ہوتی ہے؟

جواب

   شہر میں متعد د مقامات پر جمعہ کی نماز ادا کرنا جائز ہے، خواہ وہ مساجد ایک دوسرے سے قریب ہوں، البتہ   جامع مسجد میں جمعہ پڑھنا افضل ہے، اس لیے  مذکورہ علاقے کے مسلمانوں کو چاہیے  قریب قریب  علاقے والے باہم اتفاق وتحاد سے کسی ایک ایسی  مسجد کو متعین کرلیں  جس میں زیادہ نمازیوں کو گنجائش ہو یا وہ محلہ کی جامع مسجد ہو   اور  پھر وہیں سب مل کر جمعہ ادا کریں, یہی افضل اور بہتر ہے کیوں کہ جمعہ کی نماز میں اجتماع کی زیادتی شریعت میں مطلوب ہے، اس لیے اس کا قیام بڑی مساجد ہی میں مناسب ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 144):

"(وتؤدى في مصر واحد بمواضع كثيرة) مطلقاً على المذهب، وعليه الفتوى، شرح المجمع للعيني، وإمامة فتح القدير؛ دفعاً للحرج".

(قوله: مطلقاً) أي سواء كان المصر كبيراً أو لا، وسواء فصل بين جانبيه نهر كبير كبغداد أو لا، وسواء قطع الجسر أو بقي متصلاً، وسواء كان التعدد في مسجدين أو أكثر، هكذا يفاد من الفتح، ومقتضاه أنه لا يلزم أن يكون التعدد بقدر الحاجة كما يدل عليه، كلام السرخسي الآتي (قوله: على المذهب) فقد ذكر الإمام السرخسي أن الصحيح من مذهب أبي حنيفة جواز إقامتها في مصر واحد في مسجدين وأكثر، به نأخذ لإطلاق: «لاجمعة إلا في مصر» شرط المصر فقط، وبما ذكرنا اندفع ما في البدائع من أن ظاهر الرواية جوازها في موضعين، لا في أكثر، وعليه الاعتماد اهـ فإن المذهب الجواز مطلقاً، بحر". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201836

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں