بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شریک کا تنخواہ وصول کرنا درست نہیں


سوال

تحریری معاہدے میں درج نقطہ نمبر3:

 فریق اول محمد کی غیر موجودگی میں فریق دوم سلیم کاروبار کی آمدن میں سے اپنا پچاس فیصد حصہ لینے کے ساتھ ساتھ باہمی طے شدہ رقم اضافی لے گا۔ اضافی رقم کی مقدار حالات کے مطابق آپس میں طے یا تبدیل کی جا سکتی ہے۔ رائج شدہ طریقہ فریق اول کاروبار کے تمام ماہانہ اخراجات بشمول ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگیوں کے بعد منافع کو دو حصوں میں پچاس فیصد کے اصول کے تحت تقسیم کرتا ہے، جس میں سے ایک حصہ فریق اول محمد کا ہے جب کہ دوسرا حصہ فریق دوم سلیم کا ہے۔

 اس کے بعد فریق دوم سلیم فریق اول محمد کے پچاس فیصد حصہ میں سے طے شدہ رقم بطور تنخواہ کاروبار کو مہیا کردہ خدما ت کے عوض وصول کرتا ہے اور بقیہ رقم فریق اول محمد کو ادا کردیتا ہے۔ 10 مارچ 2017 کی شب محمد اور سلیم کی فون پر کاروبار سے متعلق بات چیت ہوئی ۔

 محمد کی جانب سے یہ نقطہ پیش کیا گیا کہ محمد اور سلیم کے درمیان معاہدہ میں موجود منافع کی باہمی تقسیم اور سلیم کی تنخواہ کا فارمولا حقیقت میں رائج شدہ فارمولا سے تضاد رکھتا ہے۔ محمد کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اب تک اس فارمولا کے تحت جو بھی ادائیگی ہو چکی ہے، اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ، تاہم اس پر مزید بات چیت کر کے مستقبل کے لیے کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔ فریق اول محمد اور فریق دوم سلیم کے مابین بذریعہ ای میل ہونے والی گفتگو اور دونوں کی جانب سے پیش کردہ دلائل:

سلیم : آ پ نقطہ نمبر ۳ پڑھو، یہ بہت واضح ہے۔ فریق اول محمد نے سلیم کو اپنی غیر موجودگی میں اُس کے ۵۰ فیصد حصے کے ساتھ ساتھ اضافی رقم دینی ہو گی۔ یہ الفاظ ہیں جو کہ بہت واضح ہیں۔ حالات کے مطابق یہ (رقم) تبدیل ہو سکتی ہے ۔

محمد: آپ کے الفاظ معاہدے میں درج الفاظ سے مختلف ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ فریق اول محمد نے سلیم کو 50فیصد کے ساتھ اضافی رقم دینی ہو گی۔ معاہدے کے الفاظ یہ ہیں: ’’فریق اول محمد کی غیر موجودگی میں فریق دوم سلیم کاروبار کی آمدن میں سے اپنا پچاس فیصد حصہ لینے کے ساتھ ساتھ باہمی طے شدہ رقم اضافی لے گا۔ اضافی رقم کی مقدار حالات کے مطابق آپس میں طے یا تبدیل کی جا سکتی ہے‘‘ ۔

سلیم: ایگریمنٹ(معاہدے) کی آپ نے بات کی تھی وہ میں نے دیکھا ہے اس کے مطابق آپ نے یا بندہ دینا ہےاور اس کو آپ نے پے(تنخواہ) دینی ہے، یا پھر میں ہی اس کو مینج کر کے(اکیلا کاروبار کا انتظام سنبھال کے) اس کی پے(تنخواہ) کاٹوں ۔

محمد: اگر آپ اسٹامپ پیپر پر لکھے گئے معاہدے پر نظر ثانی کریں تو اس میں منافع کی باہمی تقسیم سے متعلق نقطہ نمبر 3مندرجہ ذیل ہے:

'' فریق اول محمد کی غیر موجودگی میں فریق دوم سلیم کاروبار کی آمدن میں سے اپنا پچاس فیصد حصہ لینے کے ساتھ ساتھ باہمی طے شدہ رقم اضافی لے گا۔ اضافی رقم کی مقدار حالات کے مطابق آپس میں طے یا تبدیل کی جا سکتی ہے''۔ آپ کا بیان تحریری معاہدے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جہاں تک ذمہ دار بندہ دینے کی بات ہے تو وہ معاہدے کی زیرِ بحث آنے والی ممکنہ صورتوں میں سے ایک تھی جس پر ہم متفق نہیں ہوئے۔ اگر میں ذمہ دار بندہ دیتا تو وہ میری جگہ آپ کے ساتھ تمام معاملات میں برابر کا حصہ دار ہوتا بشمول فیصلہ  سازی کے، اوراس کی تنخواہ میری ذمہ داری ہوتی، اور اس صورت میں آپ کی کوئی تنخواہ نہ ہوتی اور منافع کے ہم برابر حق دار ہوتے۔ چوں کہ ہم اس چیز پر متفق نہیں ہوئے کیوں کہ ہمارے مطابق باہر کا بندہ آنے سے مسائل پیدا ہوں گے اور معاہدہ یہ طے پایا کہ تمام معاملات کے آپ ہی ذمہ دار ہوں گے اورآپ کو مہیا کردہ خدمات کے عوض کاروبار کے اکاؤ نٹ سے تنخواہ ملے گی اور اس کے بعد ہم دونوں منافع میں برابر کے حصہ دار ہوں گے۔ (یہی چیز ہمارے درمیان ہونے والے معاہدے میں درج ہے)

سلیم: میں نے معاہدہ پڑھا ہے ، معاہدے میں یہ بات نہیں کہ میں آمدن میں سے تنخواہ لوں گا اور بعد میں منافع کو آدھا آدھا تقسیم کیا جائے گا۔ معاہدے میں صاف لکھا ہے ہے کہ50 فیصد کے حساب سے منافع تقسیم کر لیں، اس کے بعد آپ نے اضافی رقم  دینی ہوگی (معاہدے کے الفاظ: ۵۰ فیصد حصے کے ساتھ ساتھ)۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ اس بندے (فریق اول کی جانب سے تعینات کردہ ذمہ دار شخص) کی تنخواہ مجھے دے رہے ہو یا دوسرے الفاظ میں اضافی انتظامی تنخواہ دے رہے ہو۔ معاہدہ ہم نے بندہ رکھنے یا نہ رکھنے کے بعد ہی لکھا تھا۔ میرے مطابق نقطہ نمبر 3 سادہ اور واضح ہےاور میں اس پر عمل کر رہا ہوں۔ جیسے آپ کہتے ہو کہ کل منافع میں سے میری تنخواہ کاٹی جائے، اس کا مطلب ہے کہ میں بھی اس تنخواہ کا آدھا ادا کر رہا ہوں جو کہ منطق کے لحاظ سے غلط ہے۔ صرف آپ تنخواہ کی ادائیگی کے ذمہ دار ہو۔

محمد: معاہدے میں درج نقطہ نمبر 3 بالکل واضح ہے اور اسے کسی قسم کی تشریح درکار نہیں۔ نقطہ یہ ہے: ’’فریق اول محمد کی غیر موجودگی میں فریق دوم سلیم کاروبار کی آمدن میں سے اپنا پچاس فیصد حصہ لینے کے ساتھ ساتھ باہمی طے شدہ رقم اضافی لے گا۔ اضافی رقم کی مقدار حالات کے مطابق آپس میں طے یا تبدیل کی جا سکتی ہے۔‘‘ یہ نقطہ واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ کاروبار کی آمدن میں سے 50فیصہ حصہ کے ساتھ اضافی رقم۔ آپ اس کی تشریح اس طرح کر رہے ہیں: ’’ فریق اول محمد نے فریق دوم سلیم کو اپنی غیر موجودگی میں اُس کے 50 فیصد حصے کے ساتھ ساتھ اضافی رقم دینی ہو گی۔‘‘ عرض یہ ہے کہ محمد تو 50 فیصد حصہ بھی ادا نہیں کر رہا،یہ تو کاروبا رہے جو فریق دوم سلیم کو 50 فیصد ادا کر رہا ہےاور اس کے ساتھ ساتھ چوں کہ آپ اپنی خدمات بطور مینیجر ادا کر ہے ہیں تو اس کے عوض کاروبار اپنی آمدن میں سے آپ کو تنخواہ ادا کر رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ: ’’ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ اس بندے (فریق اول کی جانب سے تعینات کردہ ذمہ دار شخص) کی تنخواہ مجھے دے رہے ہو یا دوسرے الفاظ میں اضافی انتظامی تنخواہ دے رہے ہو‘‘۔ یہ بالکل غلط کہ کیوں کہ آپ اُس چیز کا حوالہ دے رہے ہیں کو معاہدے کی ممکنہ صوتوں میں سے ایک تھی، جو معاہدے سے قبل زیرِبحث آئی تھیں، مگر ہم دونوں اُس پر متفق نہیں ہوئے تھے اور اُسے رد کر دیا تھا اور ہم اِس صورت پر متفق ہوئے تھے جو اَب ہمارے معاہدے میں درج ہے۔ اگر ہم  اُس صورت پر اتفاق کر لیتے تو وہ معاہدے میں درج ہوتا، اور میں کسی ذمہ دار شخص کو اپنی جگہ تعینات کرتا، اور پھر اُس شخص کی تنخواہ میری ذمہ داری ہوتی اور اُس صورت میں آپ کی کوئی تنخواہ نہ ہوتی۔ ہم نے اُس صورت کو رد کر دیا تھااور موجودہ صورت پر اتفاق کیا تھا جو معاہدے میں درج ہے۔ اس کے بعد ہی ہم نے معاہدے لکھا۔ اس لیے یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ آپ کی تنخواہ میری ذمہ داری ہے۔ اب تیسری بات: آپ کے الفاظ: ’’جیسے آپ کہتے ہو کہ کل منافع میں سے میری تنخواہ کاٹی جائے اس کا مطلب ہے کہ میں بھی اس تنخواہ کا آدھا ادا کر رہا ہوں کو منطق کے لحاظ سے غلط ہے۔ صرف آپ تنخواہ کی ادائیگی کے ذمہ دار ہو۔‘‘

عرض یہ ہے کہ یہاں تین وجود ہیں: محمد، سلیم اور کاروبار۔

جو شخص بھی کاروبار کو اپنی خدمات مہیا کرتا ہے وہ اس سے اپنے عُہدے کے مطابق تنخواہ لے گا۔ ہم دونوں کا 50 فیصد منافع اپنی جگہ برقرار ہے۔ آپ انتظامی امور میں اپنی خدمات فراہم کر رہے ہیں اور اس کے بدلے آپ کاروبار سے تنخواہ وصول کر رہے ہیں جو کہ آپ کے لیے منافع کی 50 فیصد حصہ سے اضافی ہے۔ میں صرف 50 فیصد منافع حاصل کر رہا ہوں اور اضافی تنخواہ نہیں لے رہا ؛کیوں کہ میں کاروبار کو اپنی خدمات فراہم نہیں کر رہا۔ اگر میں بھی آپ کی طرح کاروبار کو خدمات فراہم کروں تو میں بھی تنخواہ کا حق دار ہوں گا۔ کاروبار دونوں فریقین محمد اور سلیم کی 50 فیصد کے حساب سے برابر کی ملکیت ہے، پھر مینیجر کی تنخواہ کی ادائیگی صرف فریق اول محمد کی ذمہ داری کیوں ہے؟ (مینیجر فریق دوم سلیم یا کوئی بھی دوسرا شخص ہو سکتا ہے)۔ اگر کاروبار 100 فیصد میری ملکیت ہوتا تب یہ عین منطقی تھا کہ میں تنخواہ ادا کرتا۔ اس ضمن میں ایک اور مثال: اگر اب سے آپ بھی موجود نہیں ہیں اور ہم ایک نئے منیجر کا انتظام کرتے ہیں اور وہ آپ جتنی ہی تنخواہ وصول کرتا ہے۔ اب ہر ماہ کیا صرف میں ہی اُس کی تنخواہ ادا کرنے کا ذمہ دار ہوں؟

سلیم: میں معاہدے میں درج نقطہ نمبر 3 کے الفاظ کسی دوسرے شخص کے سامنے رکھتا ہوں کہ اس سے کیا مراد ہے۔ ممکن ہے میں ان الفاظ کو نہیں سمجھ رہا۔

سوالات: سوال1 : مندرجہ بالا نقطہ نقطہ نمبر3 کی تشریح فرما دیں کہ اس میں کیا بیان کیا گیا ہے؟

 سوال2: دونوں فریقین کے موقف اور پیش کردہ دلائل کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟

سوال3: کیا معاہدے میں درج منافع کی تقسیم اور تنخواہ مقرر کرنے کا طریقہ شرعاً درست ہے؟

جواب

جس شق کے متعلق فریقین کا اختلاف ہے اس میں فریقین کے موقف کی تشریح سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی شرعی حیثیت دیکھ لی جائے۔شرعی لحاظ سے مذکورہ شق ختم کرنا ضروری ہے۔جس کی تفصیل اوروضاحت درج ذیل ہے:

دویازائد افراد کسی کاروبار میں شریک ہوں اور ہرایک کے لیے  نفع کاتناسب طے کرلیاجائے تواب کوئی ایک فریق اپنے لیے الگ اضافی رقم یاتنخواہ کامطالبہ نہیں کرسکتا ؛ اس لیے کہ شراکت کے ساتھ ساتھ ایک شریک بطورِ اجرت کام کرے اس صورت  میں شریک کا اجیر ہونا لازم آتا ہے اور شرکت اوراجارہ جمع نہیں ہوسکتے ۔لہذا مذکورہ شق نمبر 3 جس میں ایک شریک کے لیے خدمات کے عوض اضافی رقم (چاہے بطورِ تنخواہ کے ہو یافریقِ اول ،فریقِ دوم کو دینے کاپابند ہو،جیساکہ دونوں فریقین کااختلاف ہے)کی شرط لگاناشرعی لحاظ سے درست نہیں  ہے۔فریق دوم اگر فریق اول کی غیر موجودگی میں کاروبار سنبھالتاہے تو یہ اس کی طرف سے احسان کامعاملہ ہے اس کے عوض الگ سے اجرت طلب نہیں کرسکتا۔لہذا یہ شق ہی معاہدے سے ختم کردی جائے۔

اگر ایک شریک زیادہ محنت کرتاہے یاکاروبار کوزیادہ وقت دیتاہے تو اس کے لیے جواز کی صورت  یہ ہے کہ اصل سرمایہ ان شر کاء کاجس تناسب سے بھی ہو مگر نفع میں زیادہ محنت کرنے اور وقت دینے والے شریک کا نفع باہمی رضامندی سے بڑھادیاجائے۔ پھر اگر ایک فریق کے لیے نفع کی زیادتی ہمیشہ منظور نہ ہو (بلکہ کچھ ماہ یاسال کے لیے ہو)تو اس کے لیے باہمی تحریری معاہدہ  سے ایک میعادمقرر کر دی جائے کہ فلاں شریک کی حسن کارکردگی  یااضافی خدمات کی وجہ سے فلاں میعاد تک ان کاحصہ نفع میں اتنے فیصد بڑھایابڑھایاجاتاہے۔اور مقررہ میعاد کے بعد نفع کے تناسب کو برابر یااس میں کمی کی جاسکتی ہے۔لیکن یہ یاد رہے کہ یہ زیادتی فیصد کے لحاظ سے ہو نہ کہ ایک فریق کے لیے رقم متعین کی جائے۔مثلاً مذکورہ صورتِ حال میں جب فریق دوم کچھ ماہ کے لیے فریق اول کی غیرموجودگی میں مکمل کاروبار سنبھالے اور محنت زیادہ ہو تو فریق دوم کانفع پچاس فیصد کے بجائے ساٹھ فیصدوغیرہ کردیاجائے۔

چناں چہ "مبسوط سرخسی" میں ہے:

"والشريكان في العمل إذا غاب أحدهما أو مرض أو لم يعمل وعمل الآخر فالربح بينهما على ما اشترطا؛ لما روي أن رجلاً جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أنا أعمل في السوق ولي شريك يصلي في المسجد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لعلك بركتك منه"، والمعنى أن استحقاق الأجر بتقبل العمل دون مباشرته والتقبل كان منهما وإن باشر العمل أحدهما، ألا ترى أن المضارب إذا استعان برب المال في بعض العمل كان الربح بينهما على الشرط أو لا ترى أن الشريكين في العمل يستويان في الربح وهما لا يستطيعان أن يعملا على وجه يكونان فيه سواء، وربما يشترط لأحدهما زيادة ربح لحذاقته وإن كان الآخر أكثر عملاً منه، فكذلك يكون الربح بينهما على الشرط ما بقى العقد بينهما وإن كان المباشر للعمل أحدهما ويستوي إن امتنع الآخر من العمل بعذر أو بغير عذر لأن العقد لا يرتفع بمجرد امتناعه من العمل واستحقاق الربح بالشرط في العقد".(11/287،دارالفکر)

"فتاوی شامی" میں ہے:

'' (قوله: والربح إلخ) حاصله أن الشركة الفاسدة إما بدون مال أو به من الجانبين أو من أحدهما، فحكم الأولى أن الربح فيها للعامل كما علمت، والثانية بقدر المال، ولم يذكر أن لأحدهم أجراً ؛ لأنه لا أجر للشريك في العمل بالمشترك كما ذكروه في قفيز الطحان، والثالثة لرب المال وللآخر أجر مثله (قوله: فالشركة فاسدة) ؛ لأنه في معنى بع منافع دابتي ليكون الأجر بيننا، فيكون كله لصاحب الدابة؛ لأن العاقد عقد العقد على ملك صاحبه بأمره، وللعاقد أجرة مثله؛ لأنه لم يرض أن يعمل مجانا فتح''۔(4/326،دارالفکر)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143901200066

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں