بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شریعت کے مطابق فیصلہ کروانے سے انکار کرنے والے کا حکم


سوال

اس مسئلہ کے بارے میں مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں کہ اگر دو آدمیوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہوجائے تو جب فیصلے کا وقت آئے تو ان میں سے ایک آدمی یہ کہتا ہے کہ میں شریعت پر فیصلہ نہیں کروں گا، مجھے اپنے رواج پر فیصلہ کرنا ہے۔  اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ آدمی کافر ہوجائے گا یا نہیں؟ کیوں کہ قرآن مجید میں اللّہ تعالی کا ارشاد پاک ہے:﴿فَلَاوَرَبِّکَ لَایُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِيْ مَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِيْ اَنْفُسِهِمْ حَرَجاً...الآية﴾

اسی طرح جب ایک منافق اور یہودی کے درمیان  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا تو منافق اس پر راضی نہیں تھا تو اس نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اس فیصلے کو لے چلتے ہیں، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو کہا کہ جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ منظور نہ ہو تو اس کے لیے میرا فیصلہ یہ ہے ،تلوار نکالی اور منافق کو قتل کر ڈالا. مذکورہ شخص کیا اس کے ضمن میں آسکتا ہے؟ برائے مہربانی وضاحت فرمائیں!

جواب

شریعت  کے فیصلہ کو تسلیم نہ کرنا کفر ہے، لیکن اس میں تفصیل ہے، یعنی اگر کوئی شخص دل سے شریعت کے قانون کو معاملاتِ زندگی میں فیصلہ کن تسلیم نہیں کرتا یا وہ شریعت کے مطابق فیصلہ ہونے کے بعد اس شرعی فیصلہ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتا ہے یا شریعت کو غیر مفید اور نامکمل سمجھ کر انکار کررہا ہو تو  ایسا شخص  دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، لیکن اگر کوئی شخص  دل سے شریعت کے قانون کو تسلیم تو کرتا ہے مگر اس پر فیصلہ کرنے سے گزیز کرتا ہے تو ایسا شخص سخت گناہ گار تو ہوگا لیکن کافر نہیں ہوگا۔

اسی طرح اگر قاضی یا حکم/ثالث کی جہالت یا ظلم کی وجہ سے ان کے پاس شریعت کے مطابق فیصلہ کرانے سے انکار کررہا ہے، یا اس کا مقصد  شریعت کے فیصلہ سے انکار نہ ہو بلکہ کسی خاص  مسئلہ میں وہ  صلح کے طور پر  خاندانی رواج کے مطابق فیصلہ کرواتا ہے اور وہ فیصلہ شرعی نصوص کے خلاف بھی نہیں ہے   تو  یہ بھی کفر نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا یہ کہنا کہ  " میں شریعت پر فیصلہ نہیں کروں گا، مجھے اپنے رواج پر فیصلہ کرنا ہے" اس میں ابہام ہے اور مختلف احتمالات ہیں ، ان احتمالات کے ہوتے ہوئے مذکورہ شخص کو کافر نہیں کہا جائے گا، البتہ اس طرح کے جملہ کہنا خطرناک ہے اس سے  اندیشۂ کفر رہتا ہے، لہذا اس طرح کے جملوں سے اجتناب کرنا چاہیے اور احتیاطاً تجدیدِ ایمان بھی کرلینا چاہیے۔

سوال میں ذکر کردہ آیت کی تفسیر میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

"اگر یہ شبہ ہو کہ ظاہر آیت سے  یہ معلوم ہوتا ہے کہ  جو شخص دوسرے قانون کی طرف اس کو باطل سمجھ کر اس کی طرف رجوع کرتے ہیں،  وہ مسلمان نہیں  حالاں کہ حرام کام کا مرتکب  جب کہ اعتقادِ حلت نہ رکھتا ہو مومن ہے گو فاسق ہو،  اسی طرح اگر  کسی کے دل میں  شرعی فیصلہ سے تنگی پیدا ہو، مگر وہ اس فیصلہ کو حق سمجھے تو  وہ بھی مسلمان نہ ہونا چاہیے  حالاں کہ تنگی پر انسان کا اختیار نہیں اور غیر اختیارات کا مکلف نہیں ، اسی طرح اگر کوئی  اس فیصلہ پر عمل نہ کرے  تو یہ بھی عدمِ تسلیم ہے  تو وہ بھی مسلمان نہ رہے حالاں کہ ترکِ عمل سے ایمان نہیں جاتا ؟ ان شبہات کا  جواب یہ ہے کہ  تحکیم اور عدمِ حرج اور تسلیم کے مراتب تین ہیں:   (1)اعتقاد سے (2) اور زبان سے (3) اور عمل سے۔

اعتقاد سے یہ کہ قانون شریعت کو حق اور موضوع للتحکیم جانتا ہے اور اس میں مرتبہ عقل میں ضیق نہیں اور اسی مرتبہ میں اس کو تسلیم کرتا ہے۔

 اور زبان سے یہ کہ ان امور کا اقرار کرتا ہوں کہ حق اسی طرح ہے۔

 اور عمل سے یہ کہ مقدمہ لے بھی جاتا ہے اور طبعی ضیق بھی نہیں اور اس فیصلہ کے موافق کاروائی بھی کرلی ۔

سو اول مرتبہ تصدیق و ایمان کا ہے اس کانہ ہونا عنداللہ کفر ہے اور منافقین میں خود اسی کی کمی تھی چناں چہ تنگی کے ساتھ لفظِ انکار اسی کی توضیح کے لیے ظاہر کردیا ہے ۔

اور دوسرا مرتبہ اقرار کا ہے اس کا نہ ہونا عندالناس کفر ہے ۔تیسرامرتبہ تقوی وصلاح کا ہے اس کانہ ہونافسق ہے اور طبعی تنگی معاف ہے۔ پس آیت میں بقرینہ ذکر منافقین مرتبہ اول مراد ہے۔  اب کوئی اشکال نہیں "۔ (تفسیر بیان القرآن، 1/375، مکتبہ رحمانیہ)

لہذا مذکورہ آیت میں شریعت کے  مطابق فیصلہ کودل سے اور اعتقاداً نہ ماننا مراد ہے۔اور یہ کفر ہے۔ لہٰذا مذکورہ شخص کے جملے میں درج بالا احتمالات کے ہوتے ہوئے اسے اس آیت کے ضمن میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 696):

" أو قال: اذهب معي إلى الشرع! فقال: لا أذهب حتى بالبيدق كفر إذا عاند الشرع، بخلاف ما إذا أراد دفعه في الجملة عند المخاصمة، أو قصد أنه صحح الدعوى فيستحق المطالبة، أو تعلل؛ لأن القاضي ربما لا يكون جالساً في المحكمة فلا يكفر، أما لو قال: إلى القاضي، فقال: لا أذهب فلا يكفر".

الفتاوى الهندية (2/ 271، 272):

"رجل قال لخصمه: اذهب معي إلى الشرع، أو قال بالفارسية: بامن بشرع رو، وقال خصمه: بياده ببارتا بروم بي جبر نروم يكفر؛ لأنه عاند الشرع ... ولو قال: آن وقت كه سيم ستدى شريعت وقاضي كجابود، يكفر أيضاً، ومن المتأخرين من قال: إن عنى به قاضي البلدة لا يكفر".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 229):

"(و) اعلم أنه (لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره خلاف، ولو) كان ذلك (رواية ضعيفة) كما حرره في البحر، وعزاه في الأشباه إلى الصغرى. وفي الدرر وغيرها: إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر وواحد يمنعه فعلى المفتي الميل لما يمنعه، ثم لو نيته ذلك فمسلم وإلا لم ينفعه حمل المفتي على خلافه.

(قوله: لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن) ظاهره أنه لا يفتى به من حيث استحقاقه للقتل ولا من حيث الحكم ببينونة زوجته. وقد يقال: المراد الأول فقط؛ لأن تأويل كلامه للتباعد عن قتل المسلم بأن يكون قصد ذلك التأويل، وهذا لا ينافي معاملته بظاهر كلامه فيما هو حق العبد وهو طلاق الزوجة وملكها لنفسها، بدليل ما صرحوا به من أنهم إذا أراد أن يتكلم بكلمة مباحة فجرى على لسانه كلمة الكفر خطأً بلا قصد لا يصدقه القاضي وإن كان لا يكفر فيما بينه وبين ربه تعالى، فتأمل ذلك وحرره نقلاً فإني لم أر التصريح به، نعم سيذكر الشارح أن ما يكون كفراً اتفاقاً يبطل العمل والنكاح، وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح، وظاهره أنه أمر احتياط".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں