بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکت کی ایک صورت


سوال

میرا  نام اسلم ہے اور میں یعقوب کے پاس کام کرتا ہوں، میرا کام مینجمنٹ کا ہے، میرے کام کی نوعیت یہ ہے کہ سودے کے بعد کے جتنے کام ہوتے ہیں: پیسے وصول کرنا، پیسے پارٹیوں کو دینا، بل بنوانا، ایکسپورٹ کے کاغذات بنانا، خط وغیرہ بھیجنا، یہ میری ذمہ داری ہے، ہمارا کام چاول، مویشی فیڈ وغیرہ کا ہے، یکم اگست ٢٠١٧ سے ملازمت ختم کر کے شراکت کا معاملہ ہوگیا، آج سے جو بھی مال خریدیں اوربیچیں گے اس میں 5 حصے یعقوب کے اور ایک حصہ اسلم کا ہوگا، اگر نقصان ہوا تب بھی 5 حصے یعقوب کے اور ایک حصہ اسلم کا ہوگا، چوں کہ ہمارے اکثر سودےادھار پر لے کر ادھار پر بیچنے کے ہوتے ہیں، دونوں کا کوئی سرمایہ نہیں لگتا، اگر کبھی کوئی نقد پر مال خریدنا پڑگیا تو کسی سے ادھار لے لیں گے یا کوئی ایک شریک اسلم اینڈ یعقوب کمپنی کو  ادھار دے دےگا، براۓ مہربانی ہماری رہبری فرمائیں کہ کیا یہ طریقہ کار شرعا جائز ہے؟

جواب

مذکورہ صورت  شرعی اعتبار سےدرست ہے ،اور دونوں فریق(اسلم اور یعقوب ) نفع ونقصان میں اسی تناسب سے شریک ہوں گے۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 143811200044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں