بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شرعی ایڈوائزر کی موجودگی میں تکافل کا حکم


سوال

کیا تکافل جائز ہے، جب کہ شرعی ایڈوائزر موجود ہو؟

جواب

ہماری تحقیق کے مطابق موجودہ دور میں تکافل میں بھی وہی خرابیاں(سود، جوا اور غرر) پائی جاتی ہیں جو انشورنس  میں پائی جاتی ہیں؛ اس لیے انشورنس کی طرح تکافل کرانا بھی ناجائز ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 403):

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه، وهو حرام بالنص".

سود اور جوے کا مطلب تو واضح ہے، غرر کا مفہوم یہ ہے کہ کسی معاملہ  میں کم از کم ایک فریق کا معاوضہ غیر یقینی کیفیت کا شکار ہو جس کا تعلق معاملہ کے اصل اجزاء سے ہو ، تکافل کے اندر  بھی جس خطرہ کی حفاظت کے لیے معاملہ کیا جاتا ہے اس کا پایا جانا غیر یقینی ہے اور معلوم نہیں کہ کتنی رقم واپس ہو گی، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جتنی رقم دی ہے وہ ساری کی ساری ڈوب جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نقصان اور حادثہ کی صورت میں زیادہ رقم مل جائے، تو چوں کہ مذکورہ معاملہ میں صورتِ حال واضح نہیں؛ اس لیے یہ معاملہ غرر پر مشتمل اور نا جائز ہوا۔

صحيح مسلم (3/ 1153):

"عن أبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الحصاة، وعن بيع الغرر»".

باقی تکافل کی بنیاد جن اصول پر رکھی گئی ہے وہ بھی باطل ہیں، مثلاً:

ایک بنیاد یہ  بیان کی گئی ہے کہ منقولی اشیاء کا وقف پہلے اپنی ذات یا صرف اغنیاء پر ہو سکتا ہے، اُس کے بعد وجوہِ خیر کے لیے ہو گا ، یعنی جو شخص پریمیم ادا کرتا ہے وہ واقف ہے اور وہ اپنا وقف شدہ مال پہلے اپنے ہی اوپر وقف کر رہا ہے اور بالآخر وجوہِ خیر کے لیے ہو گا، لیکن یہ باطل ہے جس کا باطل ہونا درج ذیل عبارت سے ثابت ہوتا ہے:

فتح القدير للكمال ابن الهمام (6/ 219):

"ثم إذا عرف جواز وقف الفرس والجمل في سبيل الله، فلو وقفه على أن يمسكه ما دام حياً إن أمسكه للجهاد جاز له ذلك ؛ لأنه لو لم يشترط كان له ذلك؛ لأن لجاعل فرس السبيل أن يجاهد عليه، وإن أراد أن ينتفع به في غير ذلك لم يكن له ذلك، وصح جعله للسبيل: يعني يبطل الشرط، ويصح وقفه".

اسی طرح  تکافل کو جن بنیادوں پر کھڑا کیا گیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ  چندہ دینا ایک مستقل معاملہ ہے اور اگر چندہ دینے والے کا نقصان ہو جائے تو اسی چندہ سے اس چندہ دینے والے کے نقصان کی تلافی کرنا  دوسرا معاملہ ہے، دونوں ایک دوسرے کے عوض نہیں ہیں،  یعنی چندہ دینے والا کوئی عقدِ معاوضہ نہیں کر رہا کہ اُس کے بدلے اُس کو بعد میں نقصان کی صورت میں معاوضہ دیا جائے گا، بلکہ یہ دونوں علیٰحدہ معاملہ ہیں، لہذا عقدِِ معاوضہ نہ ہونے کی وجہ سے اگر زیادہ وصول کر بھی لیا تو یہ  سود نہ ہوگا۔

لیکن یہ بھی باطل ہے ؛ کیوں کہ الفاظ میں تو اگرچہ یہی کہا جا رہا ہےکہ یہ نقصان کی تلافی اس کا عوض نہیں ہے، لیکن در حقیقت نقصان کی تلافی اُسی چندہ کا عوض ہوتا ہے  اور گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر آپ زیادہ چندہ دیں گے تو زیادہ تلافی کی جائے گی اور اگر کم چندہ دیں گے تو کم تلافی کی جائے گی۔ نیز ظاہر ہے کہ نقصان کی صورت میں انہی افراد کے نقصان کی تلافی کی جائے گی جو چندہ دیتے ہوں، جو چندہ نہیں دیتے ان کے نقصان کی تلافی بھی نہیں ہوگی۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 46):

" أن العبرة للمعاني دون الألفاظ".

مجوزینِِ تکافل کی طرف سے تکافل کی ایک بنیاد یہ  بھی بیان کی گئی   ہے کہ "وقف فنڈ" اور "تکافل کمپنی" دونوں الگ الگ شخص قانونی ہیں؛ اس لیے ایک ہی شخصیت  رب المال اور مضارب  نہیں، بلکہ دونوں جدا جدا ہیں،  لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے؛ کیوں کہ شخصِ معنوی چوں کہ ایک معنوی چیز ہے، جس کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہے؛ اس لیے کمپنی کے ڈائیریکٹرز خود ہی ان دونوں کے متولی ہوتے ہیں، گویا خود ہی مضارب ہوتے ہیں اور خود ہی رب المال ہوتے ہیں، اور ایک ہی شخص مضارب بھی ہو اور رب المال بھی ہو یہ شرعاً درست نہیں، اس لیے یہ بنیاد بھی باطل ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 135):

"والثاني: العدد في العاقد، فلا يصلح الواحد عاقداً من الجانبين في باب البيع".

اسی طرح نظامِ تکافل میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ وقف کے باب میں ایک ضابطہ یہ ہے کہ وقف کی رقم مالک کو واپس نہیں کی جا سکتی، بلکہ وہ صرف وقف کے مصالح اور مقاصد میں ہی استعمال کی جاسکتی ہے، جب کہ نظامِِ تکافل میں  نقصان کی صورت میں وقف کی ہوئی رقم مالک کو واپس کر دی جاتی ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 221):

"(قوله : ولا يملك الوقف) بإجماع الفقهاء، كما نقله في فتح القدير ؛ ولقوله عليه السلام لعمر - رضي الله عنه -: «تصدق بأصلها، لا تباع ولا تورث»؛ ولأنه باللزوم خرج عن ملك الواقف، وبلا ملك لا يتمكن من البيع، أفاد بمنع تمليكه وتملكه منع رهنه، فلا يجوز للمتولي رهنه".

نیز کسی بھی عقد کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ عاقدین عاقل ہوں جب کہ اس نظام میں عقد کی نسبت شخصِ معنوی کی طرف کی جاتی ہے جو کہ خارج میں وجود ہی نہیں رکھتا؛ اس لیے عقد کی نسبت اس کی طرف کرنا سراسر غلط ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 135):

"(أما) شرائط الانعقاد فأنواع: بعضها يرجع إلى العاقد، وبعضها يرجع إلى نفس العقد، وبعضها يرجع إلى مكان العقد، وبعضها يرجع إلى المعقود عليه، (أما) الذي يرجع إلى العاقد فنوعان: أحدهما أن يكون عاقلاً".

مذکورہ بالا مفاسد کی بنا پر تکافل کا مروجہ نظام شرعاً درست نہیں خواہ اس ادارے میں شرعی ایڈوائیزر ہو یا نہ ہو، اس لیے تکافل کے تحت دی جانے والی سہولیات اور پالیسیاں لینا , استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200186

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں