بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شافعی مسافر (اتمام کرنے والے) امام کے پیچھے مقیم کا نماز پڑھنا اور ضعیف روایت پر مذکور انعام کے ملنے نہ ملنے کا عقیدہ رکھنا


سوال

1-  ایک حنفی آدمی جوکہ مسافر ہو جب وہ امامت کرائے اور ۲ رکعت کے بجائے چار رکعت قصداً پڑھے , اس کی نماز درست ہو جائے گی,  دورکعت فرض اور دو رکعت نفل ہوں گی. لیکن حنفی مقتدیوں کو نماز دہرانی پڑے گی اس لیےکہ ان پر چار رکعت فرض ہیں اور جو شخص فرض پڑھ رہا ہو , اس کے لیے درست نہیں کہ نفل پڑھنے والے کی اقتدا  کرے. ہماری فقہ حنفی کی کتابیں یہی بتاتی ہیں.

اب میرا سوال یہ ہے کہ اگر اسی طرح کا مسافر امام جو شافعی ہو اور چار رکعت پڑھے تو پھر حنفی مقتدیوں کی نماز کا کیا حکم ہوگا؟ یہ بات مدنظر رہے کہ شافعی امام کی چاروں رکعتیں فرض ہوں گی؛  اس لیےکہ ان کے نزدیک اتمام کی اجازت ہے، نماز درست ہوگی یا دہرانی پڑے گی؟

2-  اگر کوئی شخص فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کرتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےحقیقت میں یہ حدیث نہیں کہی، بلکہ راویوں کی غلطی کی وجہ سے بدل گئی یا حدیث گڑھ لی گئی تو کیا پھر جس شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سمجھ کر عمل کیا اس کو حدیث میں مذکور انعام ملے گا؟ ممکن ہے کہ اس نے حدیث پر عمل کرنے کے لیے بہت مشقت اٹھائی ہو!

جواب

1. اگر شافعی امام مسافر ہو اور وہ پوری چار رکعت پڑھائے جب کہ ان کے نزدیک چار رکعت پڑھنا جائز ہے اور مقتدی مقیم (حنفی) ہوں تو مقتدیوں کی اقتدا  درست نہیں؛ کیوں کہ آخر کی دو رکعات مقیم کے مطابق نفل ہیں اور نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنے والے کی اقتدا درست نہیں. (1)

2. محدثینِ کرام رحمہم اللہ نے فضائل کے باب میں بھی ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے جواز کے لیے شرائط مقرر کی ہیں، علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے اپنے شیخ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ضعیف روایت پر عمل کرنے کی تین شرائط ہیں:

1۔ شدید ضعف نہ ہو، لہذا اگرجھوٹ بولنے والے، جن پر جھوٹ کی تہمت ہو یا جن کی غلطیاں بہت واضح ہوں، کسی روایت میں منفرد ہو ں تو وہ اس حکم سے خارج ہے۔

2۔ وہ حکم شریعت کے کسی کلی اصل کے تحت داخل ہو، لہذا اگرکوئی روایت ایسی ہے جس کی کوئی اصل نہ ہو اس کے لیے یہ حکم نہیں ہے۔

  3۔ اس پر عمل کے وقت اس کے ثبوت کا اعتقاد نہ ہو ، تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف وہ بات منسوب نہ ہو جو انہوں نے کہی نہیں ہے۔

لہذا وہ روایت جسے معتمد محدثین نے ضعیف کہا ہو اس پر اس اعتقاد سے عمل کیا جائے کہ اس کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نہیں، لیکن عمل کرتے ہوئے اللہ تعالی سے حدیث مذکورہ ثواب اور انعام کی امید رکھے، مذکورہ انعام کا ملنا قطعی تب کہا جاتا جب حدیث کے ثبوت میں ضعف نہ ہوتا، البتہ امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے. (2)

حوالہ جات

(1) وأما اقتداء المسافر بالمقيم فيصح في الوقت ويتم لا بعده فيما يتغير لأنه اقتداء المفترض بالمتنفل في حق القعدة لو اقتدى في الأوليين أو القراءة لو في الأخريين و في الرد : (قوله: فيصح في الوقت ويتم) أي سواء بقي الوقت أو خرج قبل إتمامها لتغير فرضه بالتبعية لاتصال المغير بالسبب وهو الوقت، ولو أفسده صلى ركعتين لزوال المغير، بخلاف ما لو اقتدى به متنفلا حيث يصلي أربعا إذا أفسده لأنه التزم صلاة الإمام وتصير القعدة الأولى واجبة في حق المقتدي المسافر أيضا، حتى لو تركها الإمام ولو عامداً وتابعه المسافر لاتفسد صلاته على ما عليه الفتوى، وقيل: تفسد كذا في السراج ولا وجه له يظهر نهر (قوله: لا بعده) أي لايصح اقتداؤه بعد خروج الوقت لعدم تغيره لانقضاء السبب وهذا إذا كانت فائتة في حق الإمام والمأموم فلو في حق الإمام فقط يصح كما لو اقتدى حنفي في الظهر بشافعي أو بمن يرى قولهما بعد المثل قبل المثلين كما في السراج، قال في البحر: وهو قيد حسن، لكن الأولى اشتراط كونها فائتة في حق المأموم فقط سواء فاتت الإمام أو لا كمن صلى ركعة من الظهر مثلاً فخرج الوقت فاقتدى به مسافر، فإنها فائتة في حق المسافر لا المقيم اهـ أي فلايصح الاقتداء لكن فوتها في حق المأموم فقط ليس هو الشرط وحده لأن فوتها في حقهما معا كذلك بالأولى . (رد المحتار ٢/ ١٣٠ ط:سعيد)

[تنبيه] يؤخذ من هذا أنه لو اقتدى مقيمون بمسافر وأتم بهم بلا نية إقامة وتابعوه فسدت صلاتهم لكونه متنفلاً في الأخريين، نبه على ذلك العلامة الشرنبلالي في رسالته في المسائل الاثني عشرية؛ وذكر أنها وقعت له ولم يرها في كتاب. قلت: وقد نقلها الرملي في باب المسافر عن الظهيرية، وسنذكرها هناك أيضاً. (رد المحتار ١/ ٥٨١ط:سعيد)

(2) و قد سمعت شيخنا مراراً يقول وكتبه لى بخطه: إن شرائط العمل بالضعيف ثلاثة: الأول: متفق عليه أن يكون الضعف غير شديد ، فيخرج من انفرد من الكذَّابين و المتهمين بالكذب ومن فحش غلطه . الثاني : أن يكون مندرجاً تحت أصل عام ، فيخرج ما يخترع ، بحيث لايكون له أصلٌ أصلاً . الثالث: ألايعتقد العمل به ثبوته ، لئلاينسب إلى النَّبيّ صلَّى الله عليه وسلَّم ما لم يقله . (القول البديع، الخاتمة ص: ۴۷۲ و ۴۷۳ ط: مؤسسة الريان) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200748

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں