بندے کی سٹیشنری کی دکان ہے، جس میں آپ کو پتا ہوگا بہت چیزیں ہوتی ہیں، اور پرچون پر ہم دیتے ہیں تو اس کی زکاۃ کس طرح ادا کریں گے؟ ہر ہر چیز شمار کرکے یا ایسے ہی اندازہ لگا کے کہ یہ سارا سامان کتنے کا ہوگا؟ اور اگر ساری چیزیں شمار کرنی ہو ں تو قیمتِ خرید یا قیمتِ فروخت؟ اور دوسری بات یہ کہ سب کے فکس ریٹ نہیں ہوتے، لوگ کم کرا دیتے ہیں تو اس صورت میں کیا کریں گے یعنی وہ کم قیمت لگا کر شمار کریں گے یا زیادہ قیمت ؟
دکان میں موجود جتنا سامانِ تجارت ہے، سب کو الگ الگ شمار کیا جائے گا،محض اندازہ لگا کر زکاۃ نکالی گئی تو جتنی رقم کم ادا کی جائے گی اتنی زکاۃ ذمے میں باقی رہے گی، اس لیے آخرت کی جواب دہی کا خیال کرتے ہوئے دکان کے مکمل سامان کا حساب لگایاجائے، نیز سامانِ تجارت میں زکاۃ کی ادائیگی کے لیے قیمت فروخت کا اعتبار ہے، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ گاہک قیمت میں رعایت کرواتے ہیں جس کی وجہ سے قیمتِ فروخت متعین نہیں رہتی ،جب قیمتِ فروخت متعین نہیں تو سال مکمل ہونے پر زکاۃ کی ادائیگی کے لیے قیمتِ فروخت کے تعین میں مندرجہ ذیل صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار کی جا سکتی ہے:
۱۔ جس دن سال مکمل ہو اس دن جو چیز جس قیمت پر فروخت ہو اسی قیمت کو معیار بنایا جائے۔
۲۔جس دن سال مکمل ہو اسی دن کے مارکیٹ ریٹ کو معیار بنایا جائے۔
۳۔جس دن سال مکمل ہو اس دن مختلف قیمتوں میں سے جس قیمت پر فروخت ہونے کا غالب گمان ہو اسی کو معیار بنایا جائے۔
۴۔اگر دکان دار ہول سیلر ہے تو اس کی قیمت اور اگر ریٹیلر ہے تو اس کی قیمتِ فروخت کو معیار بنائے،اور اگر دونوں طرح سے فروخت کرتا ہو تو جس قیمت پر غالباً فروخت کرتا ہو اسی کو معیار بنائے۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909200242
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن