بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے کے زیورات اور بسکٹ کو کرایہ پر دینا اور اس پر زکاۃ کا حکم


سوال

 کیا سونے کا زیور ، بسکٹ یا کوئی بھی سونے کی چیز کسی کو کرایہ پر دینا اور اس کا کرایہ لینا جائز ہے؟ اور کیا پھر اس کرایہ پر زکاۃ  ہونے کے ساتھ ساتھ اس سونے پر بھی زکاۃ  آئے گی یا صرف کرایہ پر ہی زکاۃ  لگے گی؟ کیوں کہ میں نے سنا ہے کہ اگر کوئی گھر کرایہ پر چڑھایا ہوا ہو تو اس گھر کی مالیت پر زکاۃ  نہیں آتی، البتہ صرف اس سے آنے والے کرایہ پر زکاۃ  ہوتی ہے ۔ سو کیا ایسا ہی سونے کا زیور یا کوئی چیز کرایہ پر دینے میں ہوگا ؟

جواب

واضح رہے کہ یہاں دو مسئلے جدا ہیں:

1- سونا چاندی کے زیور یا بسکٹ کو کرایہ پر دینے کا معاملہ۔

2- سونے یا چاندی کے زیور کو کرایہ پر دینے کی صورت میں زیور اور کرایہ کی زکاۃ کا حکم۔

1- جس چیز کے عین کو  باقی رکھتے ہوئے اس سے کسی مقصودی نفع حاصل کیا جاسکتا ہوتو  اس کا کرایہ پر لینا دینا جائز ہے، لہذا سونے کے زیورات سے چوں کہ مقصودی انتفاع ممکن ہے اور اس کا کرایہ پر لین دین معتاد بھی ہے، اس لیے سونے کے زیورات کو متعین اجرت پر متعینہ مدت کے لیے کرایہ پر دینا اوراس کا  کرایہ پر لینا جائز ہے، البتہ سونے کے بسکٹ سے چوں کہ مقصودی انتفاع ممکن نہیں ہے، یہ گویا ایسا ہے جیسا کہ کسی کو دینار (سونے کا سکہ) کرایہ پر دے دئے، اور دینار کو کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے، لہذا سونے کے بسکٹ کو بھی  کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے، بلکہ یہ قرض ہوگا، اور اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہوگی۔ 

2-  سونا چاندی کے زیور کو کرایہ پر دیے گئے مکان وغیرہ پر قیاس کرنا درست نہیں ہے، شرعی طور پر جن دو چیزوں میں قیاس ہوتاہے، ان میں علت مشترک ہونی چاہیے، یہاں سونا چاندی اور مکان وغیرہ میں فرق ہے؛ کیوں کہ سونا اور چاندی خلقۃً یعنی اپنی اصل وضع کے اعتبار سے ہی مالِ نامی (بڑھنے والا مال) ہے، اسے مالِ نامی بنانے کے لیے تجارت کی نیت کی ضرورت نہیں ہے، سونا اور چاندی خواہ تجارت کے لیے ہوں یا خرچ کے لیے یا کسی اور مقصد کے لیے ان میں ہر صورت میں زکاۃ ادا کرنا لازم ہے۔ یہی حکم نقود (کرنسی) کا بھی ہے، یعنی اس میں بھی آدمی تجارت کی نیت کرے یا نہیں بہرصورت صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں ضرورت سے زائد رقم پر زکاۃ لازم ہوگی۔

اس تفصیل کی روشنی میں اگر سونا چاندی کے زیور کو کرایہ پر دیا جائے اور اس سے نقد رقم کی صورت میں کرایہ وصول کیا جائے تو  یہ نقد کرایہ مستقل طور پر مالِ نامی ہے، اور سونا چاندی کا زیور مستقل طور پر مال نامی، لہٰذا اس زیور کا مالک اگر صاحبِ نصاب ہو اور سال پورا ہونے پر اگر کرایہ محفوظ ہو تو اس پر بھی زکاۃ لازم ہوگی اور سونا چاندی کی مالیت پر بھی زکاۃ ہوگی۔

جب کہ مکان اصل وضع کے اعتبار سے مالِ نامی (تجارت کا مال) نہیں ہے، بلکہ اس کی وضع رہائشی استعمال کے لیے ہے، اسے مالِ نامی بنانے کے لیے اس میں تجارت کی نیت کرنی ہوگی، لہذا جب تک اس میں تجارت کی نیت نہ ہو اس پر زکاۃ  کی ادائیگی لازم نہیں ہوتی،  یہی وجہ ہے گھر جب کرایہ پر دیا جائے تو  بھی اس پر زکاۃ  لازم نہیں ہوتی، البتہ اس سے حاصل شدہ آمدنی وضعاً مال ہوتاہے، لہٰذا کرایہ مکمل یا اس کا کچھ حصہ سال پورا ہونے پر محفوظ ہو اور آدمی صاحبِ نصاب ہو تو اس پر زکاۃ  لازم ہوتی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 4):
"(تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثياباً أو أواني ليتجمل بها أو دابةً ليجنبها بين يديه أو داراً لا ليسكنها أو عبداً أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له؛ لأنها منفعة غير مقصودة من العين، بزازية وسيجيء".

المبسوط للسرخسي (14/ 49):
"ولو استأجر منه ألف درهم، أو مائة دينار بدرهم أو ثوب لم يجز، قال: لأنه ليس بإناء يريد أنه لاينتفع به مع بقاء عينه، ومثله لايكون محلاً للإجارة، وإنما يرد عقد الإجارة على ما ينتفع به مع بقاء عينه، وقد بينا أن الإعارة في الدراهم، والدنانير لاتتحقق، ويكون ذلك قرضاً، فكذلك الإجارة".

المبسوط للسرخسي (15/ 170):
"قال: لا بأس بأن يستأجر الرجل حلي الذهب بالذهب وحلي الفضة بالفضة، وبه نأخذ؛ فإن البدل بمقابلة منفعة الحلي دون العين، ولا ربا بين المنفعة وبين الذهب والفضة، ثم الحلي عين منتفع به واستئجاره معتاد".

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (1/ 256):
"وذكر المصنف النماء الحقيقي والتقديري، وينقسم كل واحد منهما إلى قسمين: إلى خلقي، وفعلي. فالخلقي: الذهب والفضة؛ لأنهما خلقا للتجارة، فلايشترط فيهما النية. والفعلي: ما يكون بإعداد العبد، وهو العمل بنية التجارة كالشراء والإجارة، فإن اقترنت به النية صارت للتجارة، وإلا فلا".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 225):
" فالخلقي الذهب والفضة؛ لأنها تصلح للانتفاع بأعيانها في دفع الحوائج الأصلية فلا حاجة إلى الإعداد من العبد للتجارة بالنية؛ إذ النية للتعيين، وهي متعينة للتجارة بأصل الخلقة فتجب الزكاة فيها نوى التجارة، أو لم ينو أصلاً، أو نوى النفقة". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201348

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں