بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا سورج پانی میں غروب ہوجاتا ہے؟


سوال

قرآنِ مجید  میں سورہ کہف میں  سورج کے بارے میں ذکر ہے  کہ اس کو  گدلے پانی میں ڈوبتے ہوئے ذوالقرنین بادشاہ نے دیکھا، اس پر تفسیر ابن کثیرمیں کعب رضی اللہ سے روایت ہے کہ تم تو قرآن کو ہم سے بہتر جانتے ہو جب کہ میں تو کتاب میں دیکھتا ہوں کہ یہ تو گدلے پانی میں ڈوبتا ہے ،اسی طرح ایک حدیث اللہ کے نبی سے مروی ہے کہ اللہ کی بھڑکی آگ میں آ کر اللہ اگر سورج کی تپش کو کم نہ کرتا تو یہ ساری زمین کو جھلسا دیتا اور یہ وقت سورج کے غروب ہونے کا تھا ،اس حدیث کے بارے میں ابن کثیرلکھتے ہیں کہ یہ عبدللہ بن عمر کا اپنا کلام ہوگا، یہ ان کو یرموک کے ان تھیلوں سے ملا ہو گا ۔ عقل کہتی ہے کہ سورج تو غروب ہوتا ہی نہیں، شریعت  کی روشنی میں مدلل جواب دیں؟

جواب

قرآنِ مجید میں ذوالقرنین بادشاہ کے ذکر  میں آیا ہے کہ :

{ حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَنْ تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا } [الكهف: 86]

ترجمہ:  یہاں تک کہ جب غروب آفتاب کے موقع پر پہنچے  تو آفتاب ان کو ایک سیاہ رنگ کے پانی میں ڈوبتا ہوا دکھلائی دیا   اور اس موقع پر انہوں نے ایک قوم دیکھی ہم نے (الہاماً ) یہ کہا اے ذوالقرنین خواہ سزا دو اور خواہ ان کے بارے میں نرمی کا معاملہ اختیار کرو۔ (از بیان القرآن)

 إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ :  مراد یہ ہے کہ جانب مغرب میں اس حد تک پہنچ گئے جس سے آگے کوئی آبادی نہیں تھی۔
فِيْ عَيْنٍ حَمِئَةٍ  : لفظ حمئۃ کے لغوی معنی سیاہ دلدل یا کیچڑ کے ہیں، مراد اس سے وہ پانی ہے جس کے نیچے سیاہ کیچڑ ہو جس سے پانی کا رنگ بھی سیاہ دکھائی دیتا ہو۔ اور آفتاب کو ایسے چشمے میں ڈدبتے ہوئے دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھنے والے کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ آفتاب اس چشمے میں ڈوب رہا ہے، کیوں کہ آگے آبادی یا کوئی خشکی سامنے نہیں تھی، جیسے آپ کسی ایسے میدان میں غروب کے وقت ہوں جہاں دور تک جانبِ مغرب میں کوئی پہاڑ، درخت، عمارت نہ ہو تو دیکھنے والے کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ آفتاب زمین کے اندر گھس رہا ہے۔(معارف القرآن)

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

"مراد اس سے غالباً سمندر ہے کہ اس کا رنگ اکثر جگہ سیاہ ہے، اور سمندر میں گو حقیقۃً غروب نہیں ہوتا لیکن جہاں سمندر سے آگے نگاہ نہ جاتی ہو تو بادی النظر میں سمندر ہی میں غروب ہوتا معلوم ہوگا"۔ (بیان القرآن)

حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:

" پس جب حق تعالیٰ نے ذوالقرنین کے لیے ہر قسم کا سامان مہیا کردیا جس سے وہ اپنے عزائم کو پورا کرسکے تو اس نے سفر شروع کیا، پہلا سفر اس کا یہ ہوا کہ اس نے بارادۂ فتوحات ملکِ مغرب کی راہ لی اور ایسا راستہ اختیار کیا کہ جو اسے مغرب تک پہنچا دے، یہاں تک کہ جب سفر کرتے کرتے اور درمیانی ممالک کو فتح کرتے کرتے سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچا۔ یعنی سمتِ مغرب میں منتہائے آبادی میں پہنچا جہاں آبادی ختم ہوتی تھی تو اس نے سورج کو سیاہ کیچڑ کے چشمے میں ڈوبتا ہوا پایا، یعنی ظاہرِ نظر میں اس کو ایسا دکھائی دیا جیسے سمندر کا مسافر غروب کے وقت یہ دیکھتا ہے آفتاب سمندر میں ڈوب رہا ہے حال آں کہ آفتاب آسمان پر ہوتا ہے، مگر سمندر میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے،اسی طرح ذوالقرنین نے اس جگہ پہنچ کر سورج کو اپنی نگاہ میں ایسا پایا کہ وہ کیچڑ کے سیاہ چشمہ میں ڈوب رہا ہے، ورنہ عقلاً یہ کیسے ممکن ہے کہ آفتاب جیسا جسم عظیم جو زمین سے کئی ہزار گنا بڑا ہے اور زمین سے بہت بلند ہے وہ زمین کے ایک چشمہ میں ڈوب جائے،نیز آفتاب تو ہر وقت حرکت میں رہتا ہے آفاق پر سے گزرتا ہے، کہیں اس کا طلوع ہوتا ہے اور کہیں اس کا غروب ہوتا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین جب ساحلِ غربی پر پہنچا تو وہ ایسی جگہ تھی کہ وہ دلدل اور کیچڑ تھی کی آدمی کا وہاں گذر نہ تھا، آگے زمین نہ تھی یہ جگہ زمین کا کنارہ تھی، آگے سوائے پانی کے کچھ نہ تھا اس لیے اس کو ایسا نظر آیا کہ سورج کیچڑ کے چشمہ میں ڈوب رہا ہے۔ اس وقت اس کی نگاہ میں سوائے کیچڑ اور دلدل کے کچھ نہ تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا:  "وجدها تغرب" یعنی اپنی نگاہ میں سورج کو ایسا پایا ،اور یہ نہیں فرمایا کہ "کانت تغرب"  کہ سورج فی الواقع کیچڑ میں ڈوب رہا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر نہیں دی کہ سورج فی الواقع کیچڑ میں ڈوب رہا تھا، بلکہ یہ بتلایا کہ ذوالقرنین نے اس کو ایسا پایا۔ معاذ اللہ یہ مطلب ہرگز نہ تھا کہ سورج فی الواقع سیاہ کیچڑ میں گھس گیا تھا یا اس کے اندر اتر گیا تھا یا اس میں جا کر چھپ گیا تھا۔ کیچڑ کے ایک چشمہ میں اتنی گنجائش کہاں سے آئی کہ وہ آفتاب جیسے جرم عظیم کو اپنے اندر سما سکے، آفتاب تو زمین سے بہت بلند ہے، وہ زمین سے ملاصق اور ملا ہوا نہیں، اور اس قدر بڑا ہے کہ زمین کے چشمہ میں نہیں آسکتا اور نہ اس میں اتر سکتا ہے۔
 فائدہ : ایک قرأت میں ’’عین حمئۃ ‘‘کے بجائے ’’عین حامیۃ‘‘  آیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ گرم چشمہ میں آفتاب کو غروب ہوتے ہوئے پایا اور اس کو ایسا نظر آیا کہ آفتاب گرم پانی کے چشمہ میں ڈوب رہا ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ واقع میں بھی ایسا ہی ہوا اور یہ دونوں قرأتیں معروف ہیں، معنی کے اعتبار سے دونوں میں کوئی منافات نہیں۔ بہر حال مطلب یہ ہے کہ ذوالقرنین برابر چلتا رہایہاں تک کہ جب خشکی کی حد ختم ہوگئی اور جہاں تک آدمی جاسکتا تھا وہاں تک ذوالقرنین پہنچ گیا تو اس جگہ پہنچ کر ذوالقرنین نے آفتاب کو سیاہ کیچڑ یا گرم پانی کے چشمہ میں ڈوبتے ہوئے پایا۔ اس کے بعد حق تعالیٰ نے اس سے آگے جانے کا ذکر نہیں فرمایا ظاہر تو یہ ہے کہ اس سے آگے نہیں گیا اور ممکن ہے کہ شاید آگے بھی گیا ہو واللہ اعلم"۔ (معارف القرآن، مولف مولانا ادریس کاندھلوی سورہ کہف، آیت 86)

علامہ أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى: 774هـ)نے اپنی تفسیر ابن کثیر میں یہی مطلب بیان کیا ہے:

’’وقوله: {وجدها تغرب في عين حمئة} أي: رأى الشمس في منظره تغرب في البحر المحيط، وهذا شأن كل من انتهى إلى ساحله، يراها كأنها تغرب فيه، وهي لاتفارق الفلك الرابع الذي هي مثبتة فيه لاتفارقه‘‘.
ترجمہ: الغرض جب انتہائے مغرب کی سمت پہنچ گئے تو یہ معلوم ہوا کہ گویا بحر محیط میں سورج غروب ہو رہا ہے۔ جو بھی کسی سمندر کے کنارے کھڑا ہو کر سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھے گا تو بظاہر یہی منظر اس کے سامنے ہوگا کہ گویا سورج پانی میں ڈوب رہا ہے۔ حال آں کہ سورج چوتھے مدار پر ہے اور اس سے الگ کبھی نہیں ہوتا ۔

پھر آگے مختلف قراءت نقل کرکے وہ روایت نقل کی ہے اور اس پر کلام بھی کیا ہے جیساکہ آپ نے سوال میں نقل کیا ہے، غرض سورج کے غروب ہونے کا مطلب یہی ہے جو اوپر تفصیل سے ذکر ہوگیا، جس سے شریعت اور عقل میں تضاد نہ ہونا بھی ثابت ہوگیا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200420

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں