بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی رقم اپنی بہن کو دینا


سوال

میرا نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہے جو سیونگ ہے اور اس پر ہر ماہ میری تنخواہ آتی ہے اور وہ پیسے میں اکاؤنٹ سے نکال کر استعمال کر لیتا ہوں، لیکن اس کے باوجود مجھے ہر سال منافع ملتا ہے. میں نے ایک دفعہ درخواست بھی دائر کی ہے کہ مجھے منافع نہیں چاہیے، لیکن اس کے باوجود وہ ہر سال منافع میرے اکاؤنٹ میں بھیج دیا کرتے ہیں، اس سے پہلے بھی میری مفتی  ۔۔۔۔ صاحب سے بات ہوئی تھی جو کہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ہوتے ہیں تو انہوں نے کہا تھا کہ یہ پیسے بغیر ثواب کی نیت کے کسی بھی غریب آدمی کو دے دیں تو اب میرا سوال یہ ہے آیا یہ پیسے میں اپنی شادی شدہ بہن کو دے سکتا ہوں جس کا شوہر بے روزگار ہے اور ان کے تین بچے بھی ہیں اور ان کے پاس ذریعہ آمدن کوئی نہیں ہے؟

جواب

1- اگر آپ نے اپنے اختیار سے سیونگ اکاؤنٹ کھلوایا ہے تو  یہ اپنے اختیار سے سودی معاملہ کرنا ہے، جو از روئے نص کبیرہ گناہ ہے، اس لیے صدقِ دل سے توبہ کیجیے، اور توبہ کی تکمیل یہ ہے کہ سیونگ اکاؤنٹ کو کرنٹ اکاؤنٹ میں تبدیل کردیجیے اور صرف اتنی ہی رقم وصول کیجیے جو آپ کی تن خواہ کی یا دیگر حلال رقم ہو۔ سودی رقم وصول کرنا جائز نہیں ہوگا۔

2- اگر آپ نے اپنے اختیار سے سیونگ اکاؤنٹ نہیں کھلوایا، بلکہ جس ادارے  میں آپ ملازم ہیں وہ ملازم کا اکاؤنٹ ہی سیونگ کھلواتے ہیں تو ادارے کی طرف سے آپ کا سیونگ اکاؤنٹ کھلوانے پر امید ہے کہ آپ کو گناہ نہیں ملے گا، تاہم اس صورت میں سیونگ اکاؤنٹ سے سودی رقم وصول کرنا یہ آپ کے اختیار میں ہے، اور سودی رقم دوسرے کو ادا کرنا یا وصول کرنا حرام اور باعثِ لعنت ہے، اس لیے مجبوری یا لاعلمی میں سیونگ اکاؤنٹ کھل جائے تو  بھی ازروئے فتویٰ سودی رقم اکاؤنٹ سے نکلوانا اور وصول کرنا جائز نہیں ہے۔ آپ صرف اپنی تن خواہ یا دیگر حلال رقم کے بقدر رقم نکال لیا کریں، سودی رقم اکاؤنٹ سے نکالیے ہی نہیں۔

3- اگر لاعلمی میں سودی رقم نکال لی ہو تو بھی حرام رقم کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ رقم مالک یا اس کے ورثہ تک پہنچانا ممکن ہو تو مالک یا اس کے ورثہ تک پہنچادی جائے، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے بغیر ثواب کی نیت کے کسی مستحقِ زکاۃ  کو دے دیا جائے، لہٰذا آپ کے لیے حکم یہ ہے کہ آپ سودی رقم وصول نہ کریں، اگر وصول کرلی ہے تو نیشنل بینک میں واپس لوٹا دیجیے۔ اگر یہ ممکن نہ رہے اور  آپ کی بہن مستحقِ زکاۃ  ہے یعنی اس کی ملکیت میں سونا، چاندی، مالِ تجارت ، نقدی یا ضرورت سے زائد کوئی بھی سامان اتنا نہیں ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کو پہنچتی ہو تو آپ اپنی بہن کو یہ رقم دے سکتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201052

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں