ایک شخص ہالینڈ میں رہتا ہے اور اپنے اوپر لاگو ہونے والے تمام ٹیکس ادا کرتا ہے۔ سوال ایک خاص صورت کے متعلق ہے وہ یہ کہ بینک میں اگر ایک لاکھ موجود ہیں تو اس پر بھی ہالینڈ کی گورنمنٹ الگ سے ٹیکس کاٹتی ہے۔ اور بینک میں رکھی گئی رقم پر سود بھی ملتا ہے۔ مثلاً بینک میں ایک لاکھ موجود ہیں تو 15000 اس پر ٹیکس کٹ جاۓ گا اور دوسری جانب 20000 سود مل رہا ہے ۔ تو سوال یہ ہے کہ 15000 جو ٹیکس کاٹا گیا اس ٹیکس میں کاٹی جانے والی رقم کو سود کی رقم میں سے ٹیکس منہا ہونا شمار کر سکتے ہیں۔ اور باقی صرف 5000 سود کی بقایا رقم صدقہ کر دی جاۓ۔ از راہِ کرم راہ نمائی فرمائیں!
اگر بینک سرکاری ہو اور مذکورہ ٹیکس صرف رقم کے خاص حد تک پہنچنے پر لگتا ہے،اور اس کے لیے سودی اکاؤنٹ نہ کھولا ہو بلکہ کسی مجبوری کی وجہ سے پہلے سے کھلا ہوا ہو، اور اس مد کے ٹیکس کو اسی اکاؤنٹ میں سے ملنے والے سود کو مسئولہ طریقے پر منہا کرلیا جائے تو بوقتِ ضرورت اس کی گنجائش ہے؛ اس لیے کہ اس ملنے والے سود کا اصل حکم یہ ہے کہ اس کو واپس ہی کردیا جائے، لہذا ناحق ٹیکس کی ادائیگی میں اس کا حساب کرلینا درست ہے۔ البتہ جہاں تک ہوسکے اجتناب بہترہے۔
"(الجواب)۔۔۔۔۔ بینک کی زائد رقم کے غرباء حق دار ہیں، سرکاری ٹیکس ناقابلِ برداشت ہے او ر بینک بھی سرکاری ہے؛ اس لیے بینک کے سود سے سرکاری ناقابلِ برداشت ٹیکس ادا کرنے کی گنجائش ہے، مگر جہاں تک ہوسکے بچنے کی کوشش کی جائے کہ اس میں سود اپنے استعمال میں لانے کے مرادف ہے "۔
’’ الدر المختار مع رد المحتار ‘‘: "غصب دراهم إنسان من کیسه، ثم ردها فیه بلا علمه برئ، وکذا لو سلمه إلیه بجهة أخری کهبة، أو إیداع، أو شراء، وکذا لو أطعمه فأکله خلافاً للشافعي. زیلعي". (۹/۲۶۷ ، کتاب الغصب ، مطلب في رد المغصوب وفیما لو أبی المالک قبوله) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200034
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن