موبائل کارڈجو 100 روپے کی قیمت پر عام طور پر بازار میں دست یاب ہے، بعض دکان دار اس کارڈ کو 105 یااس سے بھی زیادہ قیمت پر بیچتے ہیں,حال آں کہ اس کارڈ کی قیمت بھی 100 روپے ہی ہوتی ہے۔یا ایزی لوڈ کرنے والا50 روپے لے کر 48 روپے کردیتا ہے، برائے مہربانی اس کی شرعی حیثیت بتائیے آ یا یہ سود کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ سود کی تعریف وہاں متحقق ہوتی ہے جہاں دونوں طرف ایک جنس ہو اور کمی بیشی کے ساتھ معاملہ کیا جائے یعنی مثلاً دونوں طرف نقد رقم ہو ، اگر ایک طرف نقد رقم ہو اور دوسری طرف خدمت ہو تو ایسی جگہ کمی بیشی کو سود نہیں کہا جائے گا، البتہ دوکان دار کاکمپنی سے جس قیمت پر بیچنے کامعاہدہ ہو، اسے اسی قیمت پر بیچنا چاہیے اور ایزی لوڈ کرنے پر بھی اتنی ہی اجرت وصول کرنی چاہیے۔ معاہدے کی خلاف ورزی ناجائز ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144010201303
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن