بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سنت لباس اور ہمارا لباس


سوال

 کچھ عرصہ قبل میں نے لباس سے متعلق آپ سے فتویٰ دریافت کیا تھا جس کا جواب جو مجھے وصول ہوا اس کا ابتدائی حصہ ابھی تک تشویش کا باعث ہے؛  لہذا مناسب معلوم ہوا کہ آپ سے اس کی وضاحت معلوم کر لی جائے وہ عبارت یہ ہے:

"واضح رہے کہ نبی کریم ﷺ کا لباس اور  آپ کی وضع  قطع  قومیت اور وطنیت کے تابع نہیں تھی،  بلکہ وحی ربّانی اور الہامِ یزدانی  کے اتباع سے تھی، عرب میں قدیم زمانے سے  چادر اور تہہ بند کا دستور چلا آرہا تھا، جو درحقیقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کا لباس تھا، جیساکہ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آزربائجان  کے عربوں کو حلہ(ازار اور چادر) پہننے کی یہ کہہ کر ترغیب دی  کہ وہ تمہارے باپ اسماعیل علیہ السلام کا  لباس ہے"۔

 اب میرا سوال یہ ہے کہ عرب میں تو قدیم زمانے سے ازار اور چادر کا رواج تھا اور فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ نے بھی ازار اور چادر پہننے کی ترغیب دی اور فرمایا کہ یہ تمہارے باپ اسماعیل کا لباس ہے تو اس سے میرے ناقص علم کے مطابق یہ معلوم ہوتا ہے کہ پھر تو ازار اور چادر ہی ضروری لباس ہونا چاہیے، لیکن ہمارے ہاں تو لباس کی شکل تھوڑی مختلف ہے اور ہم کہتے ہیں کہ یہ سنت کے قریب ہے، لیکن صورت بالا کے اعتبار سے تو ازار اور چادر ہی لازم ہونا چاہیے، لیکن ہم اس میں اس قدر رعایت کیوں برتتے ہیں؟ کہیں ہمارا لباس بھی قومیت اور وطنیت کے تابع تو نہیں یا مذکورہ بالا لباس کو مدنظر رکھتے ہوئے لباس سے متعلق کچھ شرائط وضع کی گئی ہیں؟ اگر ایسی بات ہے تو پھر تو ثابت ہوا کہ ازار اور چادر لازمی لباس تو نہ ہوا،  برائے مہربانی جتنا جلد ہو سکے ضرور جواب مرحمت فرمائیں میرا مقصد صرف حصول حق ہے۔

جواب

جواب سے پہلے یہ بات ملحوظ رہے کہ رسول اللہ ﷺ  اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لباس مبارک کو  بعض لوگوں نے روایتی اور قومی لباس قرار دیا ہے، مذکورہ جواب میں اس شبہ اور غلط فہمی کی تردید مقصود تھی کہ حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا لباس قومیت کے تابع نہیں تھا، بلکہ وہ وحی الٰہی اور انبیاء کرام علیہم السلام کی اتباع میں اختیار کردہ تھا، چناں چہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سنت قرار دے کر اسے اختیار کرنے کا حکم دیا، حضرت اسماعیل علیہ السلام اگرچہ عرب کے لیے ان کے جد امجد ہیں لیکن ان کی تقلید محض تقلیدِ آباء نہیں تھی، بلکہ بحیثیت نبی ان کی تقلید کا حکم دیا گیا، لہٰذا مسلمانوں کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کا طریقہ اختیار کرنے میں قومیت یا وطنیت کا شائبہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ اتباع نبی کی اتباع ہوتی ہے، چوں کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ نبی کا اختیار کردہ طریقہ وہ ہوتاہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ہو، لہٰذا معلوم ہواکہ لباس اور وضع قطع کے حوالے سے بھی جو طریقہ نبی کریم ﷺ نے اختیار فرمایا وہی اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ہوگا۔

اب ہم رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کا استعمال کردہ لباس دیکھتے ہیں تو اس میں ازار (تہبند)، چادر اور قمیص کا ذکر تو عام ملتاہے، اور شلوار کا استعمال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے، اور رسول اللہ ﷺ سے بھی شلوار خریدنا ثابت ہے، اور بعض روایات کے مقتضی سے  آپ ﷺ سے بھی استعمال ثابت ہے، نیز آپ ﷺ نے اسے پسند فرمایا کہ اس میں ستر کا لحاظ زیادہ ہے۔ بہر حال جو شخص رسول اللہ ﷺ کا لباس اختیار کرنا چاہے تو قمیص یا چادر کے ساتھ تہبند پہننا آپ ﷺ کا معمول تھا، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور امت کے صلحاء کرام سے چوں کہ شلوار کا استعمال ثابت ہے، لہٰذا اس لباس کو سنت کے خلاف نہیں کہا جاسکتا، بلکہ اہلِ علم کی اصطلاح میں جس عمل کو رسول اللہ ﷺ نے دیکھ کر اس سے منع نہ کیاہو، بلکہ سکوت فرماکر اس کی تائید وتصویب کی ہو تو وہ بھی حدیث سے ثابت شدہ کہلاتاہے۔ لہٰذا شلوار اور قمیص کو بھی سنت سے ثابت شدہ لباس کہا جائے گا۔

باقی شلوار اور قمیص کی بناوٹ اور سلائی کی خاص وضع مقرر نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے لباس کے لیے عمومی اصول کی طرف بھی راہ نمائی فرمائی ہے، اس کی روشنی میں لباس اختیار کرنا چاہیے۔ یہ بھی واضح رہے کہ قمیص، شلوار، چادر اور تہبند کا استعمال مستحب ہے، اس کے علاوہ جو لباس ساتر ہو، اس میں کوئی ناپاک چیز استعمال نہ ہو  اور وہ غیر مسلموں کا شعار نہ ہو اور اس کے استعمال میں غیر مسلموں کی مشابہت بھی مقصود نہ ہو اس کا استعمال کیا جاسکتاہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضورِ اقدس ﷺکے پاس بارش کے دنوں میں بقیعِ غرقد کے مقام پر بیٹھا تھا ، گدھے پر سوار ایک عورت گزری ،جس پر بوجھ تھا ، ایک نشیبی زمین پر پہنچی ،جہاں گڑھا تھا ،تو گر پڑی آپ ﷺنے دیکھ کر چہرہ عورت کی طرف سے پھیر لیا ،لوگوں نے عرض کی !کہ اے اللہ کے رسول!یہ شلوار پہنے ہوئے ہے آپ  ﷺنے فرمایا:اے اللہ !میری اُمّت کی ان عورتوں کی جو شلوار پہنتی ہیں مغفرت فرما۔

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (5/ 122):
"وعن علي قال: «كنت قاعدا عند النبي صلى الله عليه وسلم  عند البقيع - يعني بقيع الغرقد - في يوم مطير، فمرت امرأة على حمار ومعها مكار، فمرت في وهدة من الأرض فسقطت، فأعرض عنها بوجهه، فقالوا: يا رسول الله إنها متسرولة؟ فقال: " اللهم اغفر للمتسرولات من أمتي» ".

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرمﷺ کے ساتھ ایک دن بازار گیا۔ آپﷺ ایک کپڑافروش کے پاس گئے، اس سے آپﷺ نے چار درہم میں ایک شلوار (پاجامہ) خریدی۔ بازار والوں کے پاس ایک ترازو تھا جس سے وہ سامان وغیرہ وزن کیا کرتے تھے تو نبیﷺ نے ان لوگوں کو کہا کہ دیکھو! ذرا جھکتا تولا کرو۔ تو لنے والے نے کہا کہ یہ ایسا کلام ہے کہ میں نے کسی سے نہیں سنا۔ آپﷺ کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  موجود تھے، انہوں نے کہا کہ تو کیا کہہ رہا ہے، تیرا دین اور دنیا سب برباد ہوجائے گا!  کیا تم نہیں جانتے کہ یہ تیرے پیغمبر ہیں، رسول اللہﷺ ہیں۔ اس نے ترازوکو چھوڑ دیا اور فوراً رسول اکرمﷺ کے دستِ مبارک کی طرف بوسہ دینے کے لیے جھپٹا اور آپﷺ نے اپنے مبارک ہاتھ کو کھینچ لیا اور فرمایا کہ یہ عجمی بادشاہوں کا طریقہ ہے۔ ارے! میں تو تمہاری ہی طرح کا آدمی ہوں، ہاں! تم جھکا کر تولا کرو۔ اور آپﷺ نے پاجامہ لے لیا۔  حضرت ابوہریرہرضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ میں آگے بڑھا کہ میں اُٹھالوں تو نبیﷺ  نے فرمایا کہ صاحبِ سامان اس کے اُٹھانے کا زیادہ حق دار ہے ہاں! اگر کمزور ہو، ضعیف ہو تو مسلمان کو اس کی مدد کرنی چاہیے۔ پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا (چوں کہ اللہ کے نبیﷺ تو لنگی باندھتے تھے) کیا آپﷺ پاجامہ پہنتے ہیں؟ جو آپﷺ نے پاجامہ خریدا۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ رات میں بھی، دن میں بھی، سفر میں بھی، حضر میں بھی مجھے ستر پوشی کا حکم دیا گیا ہے۔

آقا ﷺ نے کیا فرمایا کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ میں دن میں بھی، رات میں بھی، سفر میں بھی، حضر میں بھی ہر حال میں ستر کو چھپاؤں اور شلوار سے زیادہ میں کسی چیز کو بہتر نہیں سمجھتا کہ ستر کو چھپانے والی ہو۔ 

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (5/ 121)
[باب في السراويل]
"8510 - عن أبي هريرة قال: «دخلت يوما السوق مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلس إلى البزازين، فاشترى سراويل بأربعة دراهم، وكان لأهل السوق وزان يزن، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : " اتزن وأرجح "، فقال الوزان: إن هذه لكلمة ما سمعتها من أحد، فقال أبو هريرة: فقلت له: كفى بك من الرهق والجفاء في دينك ألا تعرف نبيك؟ فطرح الميزان ووثب إلى يد رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد أن يقبلها، فحذف رسول الله صلى الله عليه وسلم يده منه فقال: " ما هذا؟ إنما يفعل هذا الأعاجم بملوكها ولست بملك إنما أنا رجل منكم ". فوزن وأرجح وأخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم السراويل، قال أبو هريرة: فذهبت لأحمله عنه فقال: " صاحب الشيء أحق بشيئه أن يحمله إلا أن يكون ضعيفاً فيعجز عنه فيعينه أخوه المسلم ". قال: قلت: يا رسول الله وإنك لتلبس السراويل؟ قال: " أجل في السفر والحضر، وفي الليل والنهار، فإني أمرت بالستر فلم أجد شيئا أستر منه»."

لہذا شلوار علماء و صلحاء کا لباس ہونے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند بھی ہے؛ اس لیے  یہ غیر شرعی لباس میں داخل نہیں اور اس میں تامل نہیں کرنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200482

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں