بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر کے دوران شہر سے باہر یا شہر کے اندر موزوں پر مسح کرنے کا حکم


سوال

میری بیوی باہر جاتی ہے تو موزوں اور دستانے کا استعمال کرتی ہے تو سفر کے دوران شہر سے باہر ہوں تو کیا موزوں پر مسح کر سکتے ہیں؟  اور اگر ایسی ہی شہر کے اندر سفر پر ہوں اور نماز قضا ہونے کا اندیشہ ہو تو کیا موزوں پر مسح کر نے سے وضو ہوجائے گا اور نماز ہوجائے گی؟

جواب

عام طور سے ہمارے عرف میں جو موزے پہنے جاتے ہیں یہ سوتی یا اونی ہوتے ہیں،  ان پر وضو کے دوران مسح کرنا جائز نہیں ہے،  کیوں کہ چمڑے کے موزوں پر مسح کرنا احادیثِ متواترہ کی وجہ سے خلافِ قیاس ثابت ہے،  اس لیے اصل تو یہ تھا کہ مسح صرف چمڑے کے موزوں پر ہی جائز ہوتا اور سوتی یا اونی موزوں  پر مسح بالکل بھی جائز نہ ہوتا، لیکن فقہاء نے دلالت النص کی وجہ سے صرف ایسے موزوں پر مسح کرنے کو جائز قرار دیا ہے  جو خفین (چمڑے کے موزے) والی تمام صفات کے حامل ہونے کی وجہ سے خفین کے حکم میں داخل ہوگئے ہوں، چنانچہ فقہاء نے  صرف ان جرابوں پر مسح کو جائز قرار دیا ہے جو ’’ ثخینین  ‘‘ ہوں، اور فقہاء کی تصریحات کے مطابق ’’ثخینین‘‘ ان جرابوں کو کہتے ہیں جن میں مذکورہ شرائط پائی جائیں:

۱۔ وہ جرابیں (موزے) اتنے موٹے ہوں کہ ان میں ایک فرسخ (تین میل) کی مسافت جوتا پہنے بغیر طے کی جاسکے۔

۲۔وہ جرابیں اپنی ضخامت اور موٹے پن کی وجہ سے کسی چیز سے باندھے بغیر پنڈلی پر ٹھہر سکے۔

۳۔وہ موزے اتنے موٹے اور گاڑھے ہوں نہ تو اس کے آر پار نظر آتا ہو اور نہ ہی اس میں سے پانی چھلکتا ہو۔

لہٰذا جن اونی یا سوتی جرابوں میں مذکورہ شرائط نہ پائی جائیں وہ ’’ ثخینین ‘‘ نہیں، بلکہ ’’رقیقین‘‘ (باریک) کہلاتی ہیں اور سادہ رقیقین جرابوں میں اگر اوپر نیچے چمڑا نہ چڑھا ہوا ہو تو اس پر مسح کرنا جائز نہیں ہے، خلاصہ یہ ہوا کہ مروجہ سوتی یا اونی موزے جن میں مذکورہ شرائط نہیں پائی جاتی ہیں ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہے ، اور وضو کے دوران ان پر مسح کرنے سے وضو نہیں ہوگا اور نہ ہی نماز ہوگی، چاہے شہر کے اندر ہوں یا باہر، سفر میں ہوں یا حضر میں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 269):

"(أو جوربيه) ولو من غزل أو شعر (الثخينين) بحيث يمشي فرسخا ويثبت على الساق ولايرى ما تحته ولايشف إلا أن ينفذ إلى الخف قدر الغرض.

 (قوله: على الثخينين) أي اللذين ليسا مجلدين ولا منعلين نهر، وهذا التقييد مستفاد من عطف ما بعده عليه، وبه يعلم أنه نعت للجوربين فقط كما هو صريح عبارة الكنز. وأما شروط الخف فقد ذكرها أول الباب، ومثله الجرموق ولكونه من الجلد غالبا لم يقيده بالثخانة المفسرة بما ذكره الشارح؛ لأن الجلد الملبوس لا يكون إلا كذلك عادة (قوله: بحيث يمشي فرسخاً) أي فأكثر كما مر، وفاعل يمشي ضمير يعود على الجورب والإسناد إليه مجازي، أو على اللابس له والعائد محذوف أي به (قوله: بنفسه) أي من غير شد ط (قوله: ولايشف) بتشديد الفاء، من شف الثوب: رق حتى رأيت ما وراءه، من باب ضرب مغرب. وفي بعض الكتب: ينشف بالنون قبل الشين، من نشف الثوب العرق كسمع ونصر شربه قاموس، والثاني أولى هنا لئلايتكرر مع قوله تبعا للزيلعي ولايرى ما تحته، لكن فسر في الخانية الأولى بأن لايشف الجورب الماء إلى نفسه كالأديم والصرم، وفسر الثاني بأن لايجاوز الماء إلى القدم وكأن تفسيره الأول مأخوذ من قولهم اشتف ما في الإناء شربه كله كما في القاموس، وعليه فلا تكرار فافهم (قوله: إلا أن ينفذ) أي من البلل، وهذا راجع إلى الجرموق لا الجورب؛ لأن العادة في الجورب أن يلبس وحده أو تحت الخف لا فوقه".

فتح القدير للكمال ابن الهمام (1/ 156):

"(ولايجوز المسح على الجوربين عند أبي حنيفة - رحمه الله - إلا أن يكونا مجلدين أو منعلين، وقالا: يجوز إذا كانا ثخينين لايشفان) لما روي أن «النبي صلى الله عليه وسلم مسح على جوربيه» ، ولأنه يمكنه المشي فيه إذا كان ثخيناً، وهو أن يستمسك على الساق من غير أن يربط بشيء فأشبه الخف. وله أنه ليس في معنى الخف لأنه لايمكن مواظبة المشي فيه إلا إذا كان منعلاً وهو محمل الحديث، وعنه أنه رجع إلى قولهما، وعليه الفتوى". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200502

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں