بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سفرِ شرعی میں قصر کا ثبوت


سوال

میری رہائش ’’دوحہ‘‘  شہر میں ہے اور میں کام کی  نیت سے دوحہ شہر سے تقریباً  130 کلومیٹر کے فاصلے پر ’’الرویس‘‘  شہر جاتا ہوں اور وہاں پر تین دن قیام کرتا ہوں اور پھر واپس دوحہ آجاتا ہوں، یعنی 3 دن کام اور 3 دن چھٹی، نہ سفر میں کوئی مشکل ہے نہ نماز اور  کام میں ، اب مسئلہ یہ ہے کہ میں حنفی ہوں اور ہمارے ساتھ ہر قسم کے مسلک کے لوگ موجود ہیں  جس میں عرب اور ایشیا  کے لوگ بھی ہیں،  یہ سب پوری نماز پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’قطر‘‘  اتنا چھوٹا ملک ہے کہ اس میں نمازِ  سفر اور قصر نہیں ہوسکتا۔  میں نے یہاں کے  کچھ علماء سے بھی پوچھا تھا،  بعض کہتے ہیں کہ قصر نماز پڑھو اور بعض کہتے ہیں کہ پوری  پڑھو۔  آپ سے درخواست ہے کہ احادیث کی  روشنی میں میرا یہ مسئلہ حل فرمائیں اور حدیث کا حوالہ ضرور عنایت فرمائیں۔

جواب

سفرِ  شرعی (یعنی اپنے شہر یا بستی سے باہر سوا ستتر کلومیٹر یا اس سے زیادہ کا سفر درپیش ہو تو اپنے شہر کی آبادی سے نکلنے کے بعد چار رکعات والی فرض نماز) میں قصر کرنا اللہ تعالی کا حکم ہے،  چاہے سفر میں مشقت ہو یا نہ ہو، یہاں تک کہ کسی اقامت کے قابل جگہ میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرلے یا اپنے شہر کی آبادی میں واپس داخل ہوجائے۔

 چنانچہ ’’صحیح مسلم‘‘  میں روایت ہے:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ جل شانہ نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اقامت کی حالت میں چار رکعت فرض کی ہیں اور سفر میں دو رکعت۔

اور سنن ابن ماجہ میں ہے:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کی نماز کے لیے دو رکعتیں مقرر کی ہیں اور وہ ناقص نہیں پوری ہیں۔ 

نیز  انہیں سے صحیح بخاری میں روایت ہے فرماتے ہیں:میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم سفر رہا ہوں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی (سفر میں فرض نماز ) دو رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھی، حضرت ابوبکر،عمر ،عثمان رضی اللہ عنہم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔

اور صحیح مسلم میں ہےحضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ حق تعالی فرماتے ہیں: نماز قصر کرو اگر تم کو کافروں سے فتنہ کا خوف ہو، اب تو لوگ امن کی حالت میں ہیں خوف نہیں ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:  مجھے بھی یہ شبہ پیش آیا تھا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی عرض کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اللہ تعالی کا انعام اور احسان ہے اسے قبول کرو۔

لہذا جب آپ دوحہ شہر سے ’’الرویس‘‘  شہر جائیں گے جو شرعی مسافت سفر (سوا ستتر کلو میٹر ) سے زائد مسافت پر واقع ہے اور وہاں پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کا ارادہ ہوگا تو آپ قصر نماز پڑھیں گے۔

صحيح مسلم  (2 / 143):
" عن ابن عباس قال: إن الله فرض الصلاة على لسان نبيكم صلى الله عليه وسلم على المسافر ركعتين، وعلى المقيم أربعاً، وفى الخوف ركعةً".

سنن ابن ماجة  (2 / 263):
" ... وابن عمر قالا: سن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة السفر ركعتين، وهما تمام غير قصر، والوتر في السفر سنة".

صحيح البخاري (2 / 57):
" قال : حدثني أبي أنه سمع ابن عمر يقول: صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان لايزيد في السفر على ركعتين وأبا بكر وعمر وعثمان كذلك رضى الله عنهم".

صحيح مسلم(2 / 143):
"عن يعلى بن أمية قال: قلت لعمر بن الخطاب: { ليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا}، فقد أمن الناس؟ فقال: عجبت مما عجبت منه، فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك. فقال: « صدقة تصدق الله بها عليكم، فاقبلوا صدقته »". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200544

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں