بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سعودی عرب میں صدقہ فطر کی ادائیگی کا طریقہ اور مصرف


سوال

میں عمرہ کے لیے سعودی عرب آیا ہوں،  اس سال میں 2019 صدقہ فطر مدینہ کے لحاظ سے کتنا ہے؟  اور یہاں کس کو صدقہ  فطر دیں؟  یہاں مقدار کیا ہو گی ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  چوں کہ آپ سعودیہ عرب میں ہیں تو آپ وہیں کے اعتبار سے صدقہ فطر ادا کریں، اور صدقہ فطر گندم، جو، کھجور، اور کشمش وغیرہ سے یا ان کی قیمت سے  ادا کرسکتے ہیں، اگر  صدقۂ فطر گندم سے دینا چاہتے ہیں (احتیاطاً) دو کلو گندم یا  وہاں  بازار میں  دو کلو گندم  کی جو قیمت ہے اس کے مطابق دے دیں ، اور جو، کھجور اور کشمش وغیرہ سے دینا چاہتے ہیں تو یہی  اشیاء ساڑھے تین کلو یا ان کے ساڑھے تین کلو کی وہاں بازار میں جو قیمت ہے،  اس کے مطابق صدقہ فطر  ادا کردیں، قیمت سے ادا کرنا زیادہ بہتر ہے؛ تاکہ مستحق اپنی ضرورت کے مطابق اپنی ضرورت پوری کرسکے۔

صدقہ فطر کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ  کا ہے ، لہذا جو شخص مستحق زکاۃ  ہےاس کو صدقہ فطر دے سکتے ہیں۔

حرمین شریفین میں موجود پاکستانی کے لیے دونوں صورتیں جائز ہیں: 1- وہاں کسی مستحق کو صدقہ فطر ادا کرے۔ 2- اگر وہاں مستحق ملنا دشوار ہو یا اطمینان نہ ہو تو وہاں کی قیمت کے مطابق صدقہ فطر کی رقم پاکستان میں کسی مستحق کو ادا کردے۔

اگر حرمین شریفین میں کسی مستحق کو صدقہ فطر ادا کرنا ہو تو اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں:

1- حرمین شریفین کے کسی مقامی باشندے  یا وہاں رہائش پذیر کسی غیر ملکی مسلمان (مثلاً: پاکستانی، انڈین، بنگلہ دیشی یا دیگر ) کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ مستحق ہے، تو سب سے بہتر یہ ہے کہ اسے صدقہ فطر ادا کردیا جائے۔

2- پہلی صورت ممکن نہ ہو تو عمرہ پر آئے ہوئے دیگر بہت سے لوگوں میں مستحق لوگ ہوتے ہیں، اگر عمرے پر آئے اپنے ہم وطن یا کسی دوسرے مسلمان کے ظاہری احوال سے اس کا مستحق ہونا معلوم ہو تو اسے صدقہ فطر ادا کردیا جائے۔

3- حرمین شریفین میں وہاں کی وزارتِ مذہبی امور کی طرف سے اور دیگر دینی رفاہی اداروں کی طرف سے مختلف "جمعیۃ خیریہ" کے اسٹال لگے ہوتے ہیں، جو رمضان کے آخر اور عید کے دنوں میں صدقہ فطر بھی وصول کرتے ہیں اور اس کے علاوہ زکاۃ بھی وصول کرتے ہیں اور پھر یہ رقم مستحقین پر خرچ کرتے ہیں، انہیں بھی صدقہ فطر دیا جاسکتا ہے۔ یا حرم میں جو فقراء ہوتے ہیں اگر غالب گمان یہ ہو کہ یہ مستحق ہے اور دل مطمئن ہو تو انہیں بھی صدقہ فطر دے سکتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201747

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں